February 21, 2011

گندم کی دریافت کردہ نئی اقسام



 
تحریر: ڈاکٹر محمد اعجاز تبسم
گندم کی نئی اقسام دریافت کرتے کرتے 10 سے 12 سال بیت جاتے ہیں تب کہیں جا کر اےک پلانٹ بریڈر اس قابل ہوتا ہے کہ اس کی دریافت کردہ نئی قسم کسان تک پہنچ سکے مگر اس عرصہ کے دوران یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اس کی دریافت کردہ قسم پہلے ہی سال ٹھس ہو جائے جس کی مثال شالیمار 88- اور وطن جیسی گندم کی اقسام کے حوالے سے دی جا سکتی ہے جو اپنی دریافت کے پہلے ہی برس کنگی جیسی موذی بیماری کے سبب اپنا وجود کھو بیٹھی تھیں اگرچہ کھانے کے اعتبار سے وطن کی قسم کو کسانوں نے ہاتھوں ہاتھ لےا تھا لےکن اگر یہ ورائٹی منظور ہو جاتی تو پاکستان بھر میں اس کے اوپر جنم لینے والی بیماری (کپاس کی نیاب 78 پر آنےوالی بیماری کاٹن لف کرل وائرس جیسی بیماری) کی طرح کھیتوں کھلیانوں مےں گندم کا صفایا ہو جاتا ۔چونکہ وطن 87094-v سرکاری طور پر منظور نہےں ہوئی تھی اس لئے اس قسم کو کسانوں کو کاشت کےلئے سفارش نہیں کیا گیا تھا لیکن کچھ ترقی پسند کاشتکار وطن کی اس قسم کا بیج حاصل کر چکے تھے۔ اس لئے وطن کی اس قسم پر پھوٹنے والی بیماری سے ہمارا ملک ایک بڑی مصیبت سے بچ گیا تھا۔ مگر پھر بھی اپنی غذائیت کے اعتبار سے آج تک کہیں نہ کہیں کسانوں کے پاس ےہ ورائٹی مل رہی ہے۔ کھانے کے لحاظ سے گندم کی ایک پرانی قسم LU-26 کے نام سے مرغوب ترین جانی جاتی ہے جس کی خصوصیات یا بلڈ وطن کی قسم مےں بھی شامل کیا گیا تھا اور شائدےہی وجہ ہے کہ اعلیٰ معےار کی غذائیت ہو نے کی وجہ سے گندم کی قسم وطن ابھی بھی کسانوں کے پاس موجود ہے۔
گندم کی کوئی بھی قسم ہو اس کی طبعی عمر بھی انسانوں جیسی ہی رہتی ہے چاہے تو یہ نومولودی کی عمر مےں ہی مر کھپ جائے یا پھر سو 100 سال تک بھی اس کی عمر جاسکتی ہے گندم کی قسم شالیمار 88- کو ہی لے لیں اپنی منظوری کے پہلے برس ہی ٹھس ہو گئی اور وطن جیسی مائیہ ناز قسم اپنی منظوری سے پہلے ہی دم توڑ بیٹھی مگر پاک 81- دس سال تک کھیتوں مےں قائم دائم رہی جبکہ اےک دوسری قسم انقلاب91- تو تادم تحریرےعنی گذشتہ 20 سالوں سے گندم کے کھیتوں مےں اپنا دم خم برقرار رکھے ہوئے ہے اگرچہ ہم کہتے ہےں کہ اس پر جنم لینے والی بیماری یا کنگی جو آہستہ آہستہ انقلاب 91- پر پھیل رہی ہے کے سبب اسے کم سے کم رقبہ پر لگایا جائے کیونکہ اس پر آنے والی کنگی کے اثرات پشاور، اسلام آباد، چکوال، فیصل آباد، ملتان، لاہور، بہاولپور اور سندھ کے بعض مقامات پر نمایاں طور پر دیکھے گئے ہیں۔
جیسے اےک والد کو اپنے سبھی بچے عزےز ہوتے ہیں تو پھر بھی کسی نہ کسی خوبی کی بناءپر کبھی اےک بچہ پیارا لگنے لگتا ہے تو کبھی دوسرا، ےہی حال گندم کی دریافت کردہ حالیہ نئی اقسام کا ہے۔ اب چونکہ سیلاب کی ہولناک تباہی کے سبب بیشتر کسانوں کے پاس اپنا ذخیرہ کردہ بیج ضائع ہو چکا ہے اس لئے ان کو رہنمائی دی جاتی ہے کہ وہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کے ذیلی اداروں یا پنجاب سیڈ کارپوریشن سے براہ راست سیڈ حاصل کر سکتے ہیں۔پاکستان مےں گندم کی نئی دریافت کردہ اقسام میں سحر سکس زیادہ پیداوار کی حامل قسم 2006 میں دریافت کی گئی جو شہرت یافتہ ورائٹی انقلاب 91 کا متبادل قرار دی جارہی ہے توقع کی جارہی ہے کہ سحر 2006 بھی کھیت کھلیانوں مےں ایک لمبے عرصہ تک چلے گیà اس وقت تک یہ قسم بقیہ تمام اقسام مےں سے یہ زیادہ پیداوار کی حامل قسم ہے ، گذشتہ برس وزیر اعلیٰ پنجاب کے منعقد کردہ گندم کی بہترین پیداوار لینے والے کسانوں کے مقابلے مےں گوجرانوالہ کے ایک کسان نے اپنے کھیتوں مےں جس ورائٹی کے ذریعے 83 من فی اےکڑ پیداوار حاصل کر کے ٹرےکٹر جیتا تھا وہ سحر 2006 ہی تھی لےکن اپنے قد کی وجہ سے اس قسم میں موجود گرنے کا اےک عےب اسے کسانوںمیں ناپسندیدہ کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
شفق سکس، گندم کی یہ قسم بھی 2006 میں دریافت کی گئی تھی، اپنی غذائیت کی بناءپر گندم کی موجود تمام اقسام میں سے بہترین قسم ہے à کےونکہ اس میں LU-26 اور وطن جیسی مرغوب ترین اقسام کی خصوصیات بھی شامل ہیںà جلد پک کر تیار ہونے کے سبب کسان اسے برداشت بھی پہلے ہی کر لیتے ہےں تاکہ اس کے لذےذ ترین دانے ضائع ہونے سے بچ سکےں۔
فیصل آباد آٹھ کم و بیش 100 سینٹی میٹر قد کی حامل گندم کو حکومت کی طرف سے 2008 مےں کاشت کے لئے کسانوں کو پیش کی گئی جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کم پانی مےں بہترین نتائج دیتی ہے اس لحاظ سے وہ علاقے جہاں پانی کی فراہمی کم ہے یانہر قریب نہیں ہے وہاں بھی اس قسم نے بہترین نتائج دیئے ہیں، اس قسم کو بارانی علاقوں کے لئے بھی موزوں قرار دےا گےا ہے۔
لاثانی آٹھ 2008 ہی میں لاثانی 8- گندم کی اےک ایسی قسم دریافت کی گئی جس نے ادارہ تحقیقات گندم، فیصل آباد کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں تک پہنچا دیا اور ایشیاءبھر میں یہ پہلی قسم تھی جو گندم کے پودے کے تنے پر گلوبل وارمنگ کے تحت جنم لینے والی بےماری Ug99 کے خلاف زبردست قوت مدافعت کی حامل قسم ہے جو براعظم افرےقہ کے ملک یوگنڈا سے چل کرپوری دنیا مےں پھیل رہی ہے بعدازاں کالا شاہ کاکو میں منعقدہ ایک کسان میلے میں وزیر اعظم پاکستان نے غذائی بحران کے پیش نظر کی جانے والی بھرپور کاوشوں کے تناظر ادارہ تحقیقات گندم ، فیصل آباد کے سربراہ جناب مخدوم حسین کو لاثانی آٹھ کی دریافت پر بھرے مجمعے مےںاپنے دست مبارک سے شےلڈ عطا کر کے یہ بات ثابت کر دی کہ غذائی خود کفالت کے حوالے سے ہر اس سائنسدان کو اظہار تعظیم کیا جائے گا جو وطن کی خوشحالی کےلئے اپنا دن رات ایک کر دے ۔
بارس آٹھ بارس دراصل انگریزی کے لفظ BARS سے مستعار شدہ ہے جو بارانی ایگریکلچرل ریسرچ سٹیشن کا درحقیقت مخفف ہے اور جو اٹک میں اپنی تحقیقی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ بارس8- پاکستان بھر میں دوسری قسم ہے جو تنے کی کنگی کے خلاف قوت مدافعت کی حامل قسم ہے اور جوا سی سٹیشن میں 2008 میں دریافت ہوئی۔ یہ ادارہ چونکہ بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ ، چکوال کے زیر اہتمام تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے لہذا چکوال میں منعقدہ کسان ڈے کے موقع پر وزیر اعظم پاکستان نے بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ ، چکوال کے سربراہ ڈاکٹر عابد محمود کو بھی Ug99 کے خلاف قوت مدافعت کی حامل گندم کی قسم دریافت کرنے پر ایک یادگاری شےلڈ عطا کی گئی۔
حال ہی میں ادارہ تحقیقات گندم ، فیصل آباد میں نئی لائنوں کے پیداواری نتائج کی بناءپر V-04178 نے قومی سطح پر ریکارڈ پیداوار حاصل کی ہے جو اس برس منظوری کے تمام مراحل طے کرنے کے بعد آری ٹین 10-AARIکے نام سے گندم کی ایک نئی قسم دریافت کی گئی ہے۔ آری ٹین نہ صرف زیادہ پیداوار کی حامل قسم ہے بلکہ اسے گندم کی قسم لاثانی آٹھ کا بھی باپ تصور کیا جارہا ہے۔ کیونکہ آری ٹین ہمہ قسم کی کنگیوں مثلاََ بھوری کنگی ، زرد کنگی اور تنے کی کنگی کےخلاف زبردست قوت مدافعت کی حامل قسم ہے۔ آری ٹین کا بیج چونکہ محدود پیمانے پر ہی موجود تھا اس لئے اس میں اضافہ کےلئے پنجاب بھر میں حکومتی سطح پر پھیلا دیا گیا ہے اور ادارہ مےں اب آری ٹین کا بیج تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے لہذا کسانوں سے گزارش کی جاتی ہے کہ اگر وہ آری ٹین کا 5 کلو بیج بھی حاصل کرلیں تو اسے اپنے کھیتوں مےں بڑھانے کےلئے ضرور استعمال کریں تاکہ آئندہ برس انہیں اپنے گھر میں ہی گندم کی نئی ورائٹی کا بیج دستیاب ہو سکے۔
اےوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے ایک ذیلی ادارہ واقع بہاولپور میں بھی حالیہ برسوں میں گندم کی نئی اقسام دریافت کی گئی ہیں جن میں فرید سکس اور معراج جیسی اقسام جنوبی پنجاب کےلئے زیادہ پیداوار کی حامل اقسام متصور کی جا رہی ہیں جبکہ اس برس آس ٹین 10-AAS نے بھی قومی سطح پر بہترین نتائج دیئے اور جس کی کاشت کی سفارش جنوبی پنجاب کے علاقوں کےلئے کی گئی ہے اب توقع کی جارہی ہے کہ فیصل آباد اور چکوال کی طرح ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ ، فیصل آباد کے ذیلی ادارہ واقع بہاولپور مےں بھی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے پیش نظر مستقبل میں گندم کی تنے کے خلاف قوت مدافعت کی حامل قسم ضرور دریافت کی جائے گی تاکہ مستقبل مےں گندم کو پیش آنے والے خطرہ کے پیش نظر تنے کی کنگی کے خلاف پنجاب بھر میں اپنے اپنے علاقے کی زون کے مطابق گندم کی اقسام کاشت کے لئے کسانوں کے ہاتھ میں رہے۔
ورائٹی یا قسم کوئی بھی ہو اگر وہ منظور ہوتی ہے تو اس کی پیداوار 70 من فی ایکڑ سے کم نہیں ہوتی، کیونکہ ورائٹی منظوری کے لئے نئی لائن کی پیداوار پہلے سے موجود تمام اقسام سے زیادہ پیداوار دے گی تو منظوری ہوتی ہے ۔۔۔ اب یہ کسانوں پر منحصرہے کہ وہ حالیہ نئی دریافت کردہ اقسام سے کتنی پیداوار حاصل کرتے ہیں اےک قسم سے اگر ایک کسان 30 من فی ایکڑ لیتا ہے تو اسی قسم سے کوئی دوسرا کسان 70 من فی ایکڑ لے لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پیکیج آف ٹیکنولوجی پر عمل کیا جائے تو ہر کسان گوجرانوالہ کے اس کسان سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کر سکتا ہے جس نے گندم میں زیادہ سے زیادہ پیداوار لے کر نہ صرف پنجاب بھر میں سر فہرست رہا بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ہاتھوں انعام کے طور پر ٹریکٹر بھی وصول کیا۔

No comments:

Post a Comment