February 07, 2011

شوگر ملز مافیا کسانوںکی بد حالی کا ذمہ دار



اسلام آباد (سید محمد عابد) شوگر ملز مالگان نے معاشی بدحالی کا مسلسل شکار ہونے والے کسانوں کو مزید تباہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ حال ہی میں شوگر ملز مالکان کی جانب سے گنے کے نرخوں میں کمی کر دی گئی ہے جس کے باعث کسانوں کو گنے کی فصل کی پوری قیمت موصول نہیں ہو رہی اور نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کسان سارا سال گنے کی بہتر پیداوار اور اسکی پوری قیمت کے حصول کے لئے مسلسل اور انتھک محنت کرتا ہے لیکن جب فصل کی پوری قیمت وصول نہ ہو تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سارے سال کی محنت ضائع ہوجائے گی۔ کاشتکار گزشتہ 63 سال سے پاکستان کو فصلوں کی بہترین پیداوار دے رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں اعلیٰ درجے کی کپاس، گنا، چاول اور گندم پیدا ہوتی ہے جو کسانوں کی محنت اور جانفشانی کی بدولت ہی ممکن ہے، لیکن چند عناصر ہمیشہ سے کسانوں کی راہ میں مشکلات پیدا کر کے ملکی زرعی پیداوار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں کسان رہنماءجان ایم ڈی گاگا کا مطالبہ ہے کہ شوگر مافیا کسانوں پر ظلم بند کرے اور حکومت شوگر ملز مالکان کو گنے کا فی من ریٹ 350 روپے مقرر کرنے کا پابند بنائے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو فصل کی قیمت کوڑیوں کے دام مل رہی ہے جو نہایت افسوسناک بات ہے، اور اس طرح کسان معاشی بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں، اسلئے حکومت کسانوں کو شوگر مافیا کے مظالم سے بچانے کے لئے مناسب انتظامات کرے۔
1947ءسے لیکر آج تک کسانوں نے پاکستان کو بہت کچھ دیا۔ ہمارے ملک کی 70 فیصد آمدنی کا انحصار زراعت پر ہے اور یہ سب کچھ کسانوں کی محنت کی بدولت ہی ممکن ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 78 شوگر ملیں کام کر رہی ہیں جن میں پنجاب کی 42، سندھ کی 27 اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی 9 ملیں شامل ہیں۔ دوسری جانب ایک رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں موجود 50 فیصد شوگر ملیں سیاستدانوں اور دیگر اثرورسوخ رکھنے والے افراد کی ملکیت ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے چینی کا بحران عروج پر تھا اور اس دوران چینی کی قیمتوں میں بھی من مانا اضافہ کیا گیا، لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان میں پچاس فیصد شوگر ملوں کا تعلق سیاسی شخصیات سے ہے تو پھر چینی کے بحران پر قابو پانا کیونکر مشکل ہو سکتا ہے؟ شوگر ملیں پاکستانی عوام کی ضرورت سے کہیںزیادہ چینی پید اکررہی ہیں جبکہ چینی کی وافر مقدار بیرون ممالک فروخت کر دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہماری عوام کو ہر سال چینی کے بحران کے لئے از سر نو تیار کر دیا جاتا ہے۔
شوگر مافیہ کوئی آج کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی تاریخ دس سے گیارہ سال پرانی ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنا بھی اتنا آسان نہیں رہا۔ یہ لٹیرے پاکستانی معیشت کی جڑوں میں بیٹھ چکے ہیں، اور ان کا آج تک کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ سابق وزیر خزانہ نے اپنے ایک انٹرویو میں بڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا کہ حکومت اور حزب اختلاف میں شامل چینی مافیہ کے اثرورسوخ کے باعث ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرنے والے عناصر پر ہاتھ ڈالنا ناممکن ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ملکی ضرویات کو پورا کرنے کےلئے چینی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن شوگر مل مالکان مقامی چینی کی قیمتوں کو بین الاقوامی قیمتوں کے برابر لانے کے لئے ٹی سی پی کو حکومت کی خریدی ہوئی چینی اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
آج کل پاکستان میںچینی کم از کم 70 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے جبکہ پڑوسی ملک بھارت میں اسی چینی کی فی کلو قیمت 35 روپے ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میںچینی کی قیمت بھارت کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ شوگر مافیا اور چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کے لئے حکومت چینی کا راشننگ سسٹم متعارف کروائے۔ جب بھارت جیسے 1 ارب سے زائد آبادی والے ملک میں راشن کارڈ کا طریقہ کار کامیاب ہوچکا ہے تو پھر 18 کروڑ نفوس پر مشتمل پاکستان میں بھی یہ تجربہ یقینا کارآمد ثابت ہو سکتا ہے۔

http://www.technologytimes.pk/mag/2011/feb11/issue01/sugarmills_mafia_kasanoon_ke_urdu.php 

No comments:

Post a Comment