February 21, 2011

پاکستان اور توانائی ضروریات




تحریر: صائمہ کرن
پاکستان کے اقتصادی،صنعتی اورزرعی مسائل مےں اےک بنےادی مسئلہ توانا ئی کی کمی ہے۔پاکستان مےں توانائی کے ذرائع بجلی،قدرتی گےس اورکوئلے کی صورت مےں موجود ہےں۔جہاں تک بجلی کی پےداوار کا تعلق ہے تو ملک مےں پہلے زےادہ تر بجلی پا نی سے حاصل ہو تی تھی جو پَن بجلی کہلاتی ہے۔ ےہ توانائی نہ صرف بہت سستی ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے۔آج بھی جوپَن بجلی، ملک مےںپےداہوتی ہے،وہ37پےسے فی ےونٹ کے خرچ پر،پےداہوتی ہے۔پاکستان کے قےام کے وقت آبادی کم ہوتی ہے۔اور 80فی صد دےہی علاقوں مےں بجلی نہےں تھی۔اس لےے پن بجلی سے ضرورت کافی حد تک پوری ہوجا تی تھی۔لےکن آج صورت ِحال بالکل مختلف ہے۔ 1951ءتک پاکستان کا پہلا دارالحکومت، کراچی اےک صنعتی شہر بھی بن چکا تھا اور ےہاں کارخانوں اور فےکٹرےوں مےں نہ صرف متواترا ضافہ ہو رہا تھا بلکہ توانائی کی ضرورت بھی روز بروز بڑھ رہی تھی۔ پاکستان مےں اس زمانے مےں تےل اور گےس کی تلاش کا کام شروع ہوا۔ برما آئل کمپنی پاکستان کنےشنز نے تےل کی تلاش کے سلسلے مےںبلوچستان مےں ڈےرہ بگھٹی،سوئی کے مقام پر کھدا ئی کے کام کا آغاز کر دےا۔اسی عرصے مےں پاکستان پٹرولےم لمےٹڈ،’پی پی اےل‘ کاقےام بھی عمل مےں آےااس طرح 1952ءمےںڈےرہ بگٹی،سوئی مےں ملک کی سب سے بڑی اور دنےا کی سا توےں بڑی اور دنےاکی ساتوےںبڑی گےس فےلڈمعرضِ وجود مےںآئی۔ےہ گےس فےلڈکراچی سے650کلو مےٹر کے فا صلے پر ہے۔ پی پی اےل کے مطا بق سو ئی گےس کے9625کھرب مکعب فٹ وسےع ذرائع نے ملک کی تعمےرو ترقی،خصوصاً صنعتی وزرعی ترقی مےں اہم کردار ادا کےا اور جب سو ئی سے 1955ءمےں تجا رتی پےما نوں پر گےس کی سپلائی ملک مےں شروع کی گئی تو70کی دہا ئی تک نہ صرف ےہ گےس صنعتی مقاصد کے لےے استعمال ہوتی رہی بلکہ آج کی طرح گھرےلو ضرورت بھی پو ری کر تی رہی۔ بد قسمتی دےکھےے کہ 80 کی دہائی کے آغاز تک صوبے بھر مےں کوئلہ سمےت 98 فےصد رقبے پر موجود آبادی سوئی گےس سے محروم رہی اور اب بھی صوبے کی 70 فیصد آبادی گےس کی سہولت سے محروم ہے۔ کوئلہ، قلات اور مستونگ جےسے شہروں مےں گےس کی لوڈشےڈنگ مسلسل جاری ہے۔
گےس کی قلت، بجلی کی قلت کے ساتھ 80ءکی دہا ئی مےں شروع ہو ئی اور آج ملک توانائی کے بدترےن بحران سے گزر رہا ہے۔ چوں کہ ملک کے بہت سے بجلی گھر گےس سے چلتے ہےں۔ اس لئے اندازہ کےا جا سکتا ہے کہ مستقبل مےں گےس کی مانگ مےں مزےد اضافہ ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال کے آخر مےں ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت کے درمےان ترکمانستان سے بھارت تک قدرتی گےس سپلائی کا معائدہ ہو گےا اور اس معا ئدے پر گےارہ دسمبر کو صدر پاکستان آصف علی زرداری، ترکمانستانی صدر، گور بنگولی، افغانستان کے صدر، حامد کرزئی اور بھارتی وزےر ِپٹرولےم سے دستخط کےے۔ ےہ گےس پائپ لائن، افغانستان، پاکستان سے ہوتی ہوئی بھارت تک جائے گی۔ اس گےس پائپ لائن کی کل لمبائی 1680 کلومےٹر ہو گی۔ اس منصوبے پر 7.6 ارب ڈالر کا خرچ آئے گا۔ 3.2 ارب مکعب فٹ گےس ترکمانستان برآمد کرے گا، اس مےں سے افغانستان 500 ملےن مکعب فٹ گےس لے گا، جب کہ بھارت 1325ملےن مکعب فٹ اور پاکستان بھی 1325 ملےن مکعب فٹ گےس حاصل کرے گا۔ ےہ منصوبہ 2014ءتک مکمل ہو گا۔
1955ءکے بعدسے ےہ اےک اہم تبدےلی ہے جو عملی صورت مےں 59 برس بعد بھی 2014ء مےں سامنے آئے گی۔ ےوں 2014ءمےں پاکستان کی درآمدات مےں پےٹرول اور ڈےزل کے ساتھ قدرتی گےس کا بھی اضافہ ہو گا۔ گزشتہ 30 برسوں سے کوئی بڑا پےداواری منصوبہ نہ ہونے کی وجہ سے اب ےہ صورتحال ہوگئی ہے کہ تجارتی توازن خطرناک حد تک بڑھ گےا ہے۔ سالانہ تجارتی خسارہ اربوں ڈالر تک پہنچ گےا ہے۔ سوال ےہ ہے کہ 2014ءمےں گےس کی درآمد سے کےا بجلی اور گےس کے نرخ کم ہو سکےں گے، تاکہ ہماری صنعتی مصنوعات پر لاگت کم آئے اور ہم عالمی منڈی مےں اپنی برآمدات بڑھا کر کم از کم گےس اور پٹرول وغےرہ پر اٹھنے والے اخراجات کو پورا کر سکےں۔ ہمےں بجلی کی پےداوار کے لےے فوری طور پر تھر کے کوئلے کے وسےع ذخائر کو استعمال مےں لانا ہوگا، وہ اس طرح کے عالمی سطح پر توانائی کے اےسے ذرائع، جن سے فضا مےں کاربن پےدا ہوتا ہے۔
ان پر پابندی عائد کرنے کے لےے موئثر منصوبہ بندی اور حکمت ِعملی اختےار نہےں کی گئی تو ےہ تلخ حقےقت ہے کہ ترکمانستان سے درآمد کی جانے والی قدرتی گےس ہماری اقتصادی ترقی اور خوش حالی کے بجائے پرےشانی اور بدحالی کا سبب بنے گی۔ بجلی، گےس کے نرخوںمےں مسلسل اضافے اور لوڈ شےڈنگ کی وجہ سے گزشتہ دس برس سے صنعتی پےداوار مےں بھی کمی واقع ہوئی ہے، ہزاروں صنعتی پےداواری ےونٹ بند ہو چکے اور جو ےونٹ ابھی چل رہے ہےں، ان مےں چارشفٹوں کے بجائے اےک سے دو شفٹوں مےں کام ہو رہاہے۔ دو سری جا نب توا نائی کی قےمت مےں اضافے سے صنعتی مصنو عات کی قےمتوں مےں اضافہ ہو رہا اور خصوصاً عا لمی منڈےوں مےں انکی ما نگ کم ہو رہی ہے۔اےک اندازے کے مطا بق آج بھی ہماری گےس سپلا ئی اتنی نا قص ہے کہ دس سے پندرہ فی صد گےس ضا ئع ہو جاتی ہے اور جب کہ2014ءمےں ترکمانستان سے بھارت کی سرحد تک پائپ لائن جا ئے گی، تو ےہ گےس زےا دہ قےمتی اور زرِمبادلہ کے عو ض ملے گی،اس لےے ہمےں ابھی سے اپنے ملک مےں کا رخا نوں اور گھروں تک سپلا ئی کے پورے نظام پر توجہ بھی دےنی ہو گی۔

No comments:

Post a Comment