February 21, 2011

من اپنا پرانا پاپی تھا

اکژ سننے مےں آےا ہے کہ نقار خانے مےں طوطی کی آواز سنائی نہےں دےتی۔ کچھ اےسی ہی آوازےں گزشتہ دنوں جامعہ پنجاب کے نقار خانے مےں بھی سنائی دی گئی تھےں۔ ارے بھاگو۔ پکڑو۔ جلانے نہ پائے۔ نہےں مجھے جلنا ہے۔ چھوڑ دو۔
ےہ کےسی آوازےں تھےں، ےہ کون لوگ تھے، ےہ کس کو جلا رہے تھے، ےہ کےا جلانے کی بات کر رہے تھے؟ اےسے واقعات کو سن کر بہت سارے سوالات ےکدم دماغ کی پردہ اسکرےن پر نمودار ہوتے ہےں اگر ضمےر زندہ ہو تو ےہ سوالات بازگشت بن کر جواب کی جستجو مےں اردگرد پھرتے رہتے ہےں وگرنہ ہوا مےں تحلےل ہو کر آئندہ اُٹھنے والی صداو ¿ں کا انتظار کرنے لگتے ہےں۔
واقعہ کچھ ےوں ہے کہ انسٹی ٹےوٹ آف پلانٹ پےتھالوجی کے چار طلبہ نے اپنے جائز مطالبات کی شنوائی نہ ہونے کے باعث وائس چانسلر کے دفتر کے سامنے خودسوزی کی کوشش کی، ان کے ساتھ انسٹی ٹےوٹ کے دےگر طلبہ بھی مظاہرے مےں شرےک تھے جن پر ےونےورسٹی انتظامےہ اور پولےس نے مل کر لاٹھی چارج کےا اور تشدد کا نشانہ بناےا۔
عوامی سطح پر لاٹھی چارج کوئی نئی بات نہےں ہے آئے دن سڑکوں پر ےہ تماشا ہوتا رہتا ہے لےکن کسی تدرےسی جگہ پر لاٹھی چارج قابل شدےد مذمت ہے۔ جامعات جو تدرےسی عمل مےں ستون کی حےثےت رکھتی ہےں اگر وہاں بھی مسائل کا حل مذاکرات کے بجائے تشدد مےں تلاش کےا جائے گا تو ان جامعات سے فارغ التحصےل طلبہ سے کےا گمان کےا جا سکتا ہے۔
انسٹی ٹےوٹ آف پلا نٹ پےتھالوجی (آئی پی پی) کے ےہ طلبہ مطالبہ کررہے تھے کہ ان کے ادارے کی جانب سے عطا کردہ ڈگری کو ہائر اےجوکےشن کمےشن مےں قبول کےا جائے، ان کے ادارے مےں باقاعدہ ڈائرےکٹر متعےن کےا جائے۔ نےز ان کے ادارے کا نام و حےثےت وسےع تر کےا جائے۔
ےہ مطالبات کس حد تک جائز ہےں ےا قطعی ناجائز ہیں ےہ اےک الگ بحث ہے لےکن اےک بات جوقطعی منطقی محسوس ہوتی ہے وہ ڈگری کی قبولےت ہے۔ اگر ہائر اےجوکےشن کمےشن (اےچ ای سی) کو اس ادارے کی ڈگری قبول نہےں تو پھر اےچ ای سی کو چاہےے کہ اس ادارے کی جانب سے ڈگرےوں کا اجراءروک دے۔ ےوں بے درےغ طلباءکے مستقبل سے کھےلنا ان اداروں کے سربراہان کو زےب نہےں دےتا ہے۔
اس تمام تر واقعہ کا افسوسناک پہلو ےہ ہے کہ ےونےورسٹی مےں تعینات وائس چانسلر کے مشےر اےک رےٹائرڈ کرنل صاحب ہےں جنہوں نے طلباءکو دشمن فوجی سمجھتے ہوئے ےونےورسٹی کے چےف سےکےورٹی آفےسر مےجر صاحب کو طلباءسے وہی سلوک کرنے کی ہداےت کی جو وہ زمانہ جنگ مےں دشمن فوجےوں کے ساتھ کرتے ہوں گے۔
اربابِ اختےا ر کو چاہےے کہ وہ عمارتےں بنانے کی بجائے ان کی روح پر توجہ دےں، جامعات کا تعلق صرف اےنٹ، پتھر، گارے سے نہےں ہے ےہ روح کی افزائش و اصلاح کے ادارے ہےں ان پر بھر پور توجہ دےنی چاہےے وگرنہ بقول اقبال ©ؒ
مسجد تو بنا دی شب بھر مےں
اےماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں مےں نمازی بن نہ سکا

No comments:

Post a Comment