February 13, 2011

خطرے کی گھنٹی


ایک حقیقت ہم بہت عرصے سے سنتے آئے ہیں کہ پائیدار اقصادی ترقی انسانیت کی بقاءاور ماحول ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن کےا کیجئے کہ وطن عزیز میں پائی جانے والی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے عملی طور پر آج تک کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا جاسکا۔ 
قطع نظر اسکے کہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور بے پناہ قدرتی وسائل رکھنے والا ملک ہے، ہم آج بھی بجلی کی کمی، صاف پانی کی قلت، جنگلات کے کٹاﺅ، فضائی آلودگی اور زراعت و لائیو اسٹاک کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ یہ بات بھی بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں فضائی آلودگی عالمی ادارئہ صحت کی مقرر کردہ زیادہ سے زیادہ خطرناک حد سے بھی چھ گنا بڑھ چکی ہے۔
جہاں ہم ایک طرف زیر زمین پانی کی مسلسل کمی کا شکار ہورہے ہیں وہیں دوسری جانب بھارت میں بننے والے ڈیم بھی پاکستان میں آبی حیات کیلئے موت کا پیغام بن چکے ہیں۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ موجودہ وسائل سے فائدہ اٹھانا تو درکنار ہم ان کی حفاظت کرنے میں بھی انتہائی تساہل سے کام لیتے نظر آتے ہیں، جس کی مثال جنگلات کی بے دریغ کٹائی، دریائے چناب اور راوی میں کارخانوں سے نکلنے والے زہریلے مادوں کے اخراج، کراچی فش ہاربر میں پڑے کچرے کی ڈھیروں، شہر بھر کی صنعتوں کا فضلہ بلا روک ٹوک سمندر میں گرانے اور ملک بھر سے ساٹھ فیصد سے بھی کم فضلہ اکٹھا کرنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ 
پانی زندگی ہے اور اس کی بقاءہی میں کرئہ ارض پر حیات کی بقاءکا دارومدار ہے، لیکن کچھ کم عقل انسان نما درندوں نے راتوں رات امیر بننے کیلئے دریاﺅں سے نایاب کچھووں کا شکار کرنے کیلئے ان میں زہر شامل کرنے کا نیا طریقہ دریافت کرلیا ہے۔ دریائے سندھ میں چشمہ سے لیکر سکھر بیراج تک تازہ پانی کے کچھووں کا بے تحاشہ غیر قانونی شکار جاری ہے اور حال ہی میں کشمور سے لیکر سکھر بیراج تک کے کئی کلومیٹر طویل دریائے سندھ کے علاقے میں ان کچھووں کو ہزاروں کی تعداد میں مار دیا گیا ہے۔ یہ طریقہ کار جہاں ایک طرف آبی حیات کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے وہیں دریائے سندھ کے پانی سے سیراب ہونے والی فصلوں میں بھی زہریلے مادے پائے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ 
کہنے کو تو بہت کچھ ہے، لیکن اب خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے اور ایسے حالات میں سب کچھ نہیں بلکہ کسی حد تک صرف ضروری قدرتی وسائل کو ہی بچایا جاسکتا ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق آج بھی اگر کچھ کرلیا جائے تو شاید ہم آنے والی نسلوں کیلئے باقی رہ جانے والے چند قدرتی وسائل کی حفاظت کو ممکن بنا سکیں۔

No comments:

Post a Comment