February 21, 2011

پاکستانی سائنسدان کی ماحول دوست ٹیکسٹائل مشین


دنیا بھر میں کپڑے کی صنعت سے وابستہ صنعتکاروں کے لیےدھاگے کی رنگائی کے دوران صنعتی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے آلودہ پانی کی صفائی ہمیشہ سے ایک مشکل مسئلہ رہی ہے۔
حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ایک پاکستانی سائنسدان عرفان احمد شیخ نے ٹیکسٹائل کے شعبے کے لیے ایک ایسی ماحول دوست ڈائینگ مشین تیار کی ہے جو رنگائی کے عمل کے دوران ہی آلودہ پانی کو خود بخود قابل استعمال بنا دیتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے کالج سے وابستہ ایک سائنس دان ڈاکٹر عرفان شیخ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کے تھیس نامی ایک جرمن کمپنی کے تعاون سے تیار کی جانے والی اس ڈائینگ مشین کی بدولت ساٹھ فی صد پانی، چالیس فیصد توانائی اور بہت سے وقت کی بچت ممکن ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق ٹیکسٹائل کے شعبے میں رنگائی کے عمل کے دوران انتہائی اونچے درجہ حرارت پر وافر پانی سے مشینوں کو کم از کم آٹھ مرتبہ دھونا پڑتا تھا مگر نئی مشین کمرے کے درجہ حرارت پر ہی آلودہ پانی کو ٹینک میں جانے سے پہلے ہی دوبارہ قابل استعمال بنا دیتی ہے۔
تجربہ گاہ میں کامیاب نتائج کے حصول کے بعد عرفان شیخ نے اس مشین کی تیاری کے لیے پاکستان کے مقامی ٹیکسٹائل سیکٹر کے علاوہ کئی ملکوں سے اس منصوبے میں مدد کی درخواست کی مگر کسی نے ان پر اعتبار نہیں کیا۔ عرفان شیخ کہتے ہیں کہ یہ صرف جرمن ادارہ اور پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ ہی تھی جنھوں نے یہ ٹیکسٹائل مشین بنانے میں ان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ دنیا کے سات بڑے ملکوں میں اس مشین کو رجسٹر کر لیا گیا ہے۔
اس سال سان فرانسسکو میں ہونے والے ٹیکسٹائل کے ایک بین ا لاقوامی میلے میں اس مشین کو نمائش کے لیئے پیش کیا جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں اعلی تعلیم کے کمیشن کی طرف سے جامعات میں تحقیق کے لیے دی جانے والی مالی امداد میں کافی حد تک کمی کر دی گئی ہے۔ جرمن کمپنی تھیس اس تحقیق کے حوالے سے ہونے والے ایک معاہدے کی رو سے پنجاب یونیورسٹی کو پانچ لاکھ ڈالر اور اس کی فروخت پر ہونے والی آمدنی پر رائلٹی بھی دے گی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران کے مطابق جامعہ پنجاب محدود وسائل کے باوجود تحقیقی میدان میں بہتر کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر مجاہد کامران کہتے ہیں کہ مانچسٹر یونیورسٹی میں پینتیس ہزار طلبہ کے لیے پانچ ہزار آٹھ سو پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں جبکہ پنجاب یونیورسٹی میں تیس ہزار طلبہ کے لیے صرف تین سو پی ایچ ڈی اساتذہ ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر حکومت تحقیقی سرگرمیوں کے لیے وسائل فراہم کرے تو نئی ایجاد کردہ ٹیکسٹائل مشین کی طرح بہت سے اور تحقیقی منصوبوں کی کامیاب تکمیل ممکن ہو سکتی ہے۔

No comments:

Post a Comment