June 13, 2011

چڑھ جا بیٹا سولی پر۔۔۔


چڑھ جا بیٹا سولی پر۔۔۔ہمارے ملک میں نعرے لگانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے وہ کوئی سیاسی جلسہ ہو یا کوئی سرکاری میٹنگ، ہر طرف ہر جگہ نعرہ بازی ہی نظر آتی ہے۔ دوسرے کو آگے بڑھا کر خود پیچھے سے کھسک جانا یہ ہمارا معمول بنتا جارہا ہے۔ یوں تو یہ نعرہ بازی ہمارے سیاسی رفقاءکا طریقہ کار ہے لیکن اب سرکار بھی اس سے کچھ زیادہ جدا نہیں ہے۔ حال ہی میں سیلاب کی باعث جب زمین کی زرخیزی بڑھ گئی تو ارباب اختیار نے محسوس کیا کہ نعرہ بازی کا اس سے بہتر وقت کوئی اور نہیں ہوگا، اگر نعرہ کامیاب رہا تو واہ واہ اور اگر ناکام ہوگیا تو بھی نقصان نہیں (کیونکہ ہم من حیث القوم شورٹ ٹرم میموری کے مریض ہیں، ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں اور کسی بھی نعرہ کے فریب میں دوبارہ کیا سہ بارہ اور بار بار آنے کےلئے تیار رہتے ہیں)۔ نعرہ یہ تھاکہ گندم کی بمپر پیداوار کی جائے اور اس ضمن میں ہر سطح پر گندم کی پیداوار پر نہ فقط زور دیا گیا بلکہ اس کے فروغ کےلئے کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ بالآخر کسان کی محنت اور حکومت کی کاوشیں رنگ لائیں اور ملک میں گندم کی بمپر پیداوار ہوئی، فصل کے بعد دوسرا بڑا مرحلہ کسان کےلئے فصل کی فروخت ہوتا ہے۔

 حکومت کسان کی سہولت کےلئے کھیت سے فصل کی خریداری پر یقین رکھتی ہے اور جانتی ہے کہ اگر وہ خود میدان میں نہیں آئے گی تو نجی شعبہ کسان کا استحصال کرتے کرتے اس کو زندہ درگور کردےگا۔ اس سلسلے میں گندم کی کم ازکم قیمت خرید کا تعین اور کھیت سے خریداری اہم اقدامات ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی حکومت نے خریداری کے چند اہداف مقرر کئے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں اہداف کا تقرر ان کے حصول کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ سرکاری اعداد و شمار پورا کرنے کےلئے کیا جاتا ہے۔ اس سال حکومت پنجاب نے گندم کی خریداری کا ہدف پینتیس لاکھ میٹرک ٹن مقرر کیا تھا اور بتیس لاکھ میٹرک ٹن خریداری کی ہے (ےہ صرف حکومت پنجاب کا معاملہ نہیں بلکہ دیگر صوبائی حکومتوں کے اہداف بھی کچھ ایسے ہی ہیں)۔ اسطرح اپنے تئیں بڑا مارکہ مارا ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم کبھی اپنے اہداف سے زیادہ کچھ کرسکیں گے؟ کیا اہداف کا مقصد صرف جمع خرچ کا حساب ہے یا اس کا مقصود اس کے سوا بھی کچھ ہے؟کاش کہ ہم اہداف کے حصول کی مقصدیت کو سمجھتے ہوئے اس کے لئے کوشش کریں تاکہ کل جب بھی ہم کوئی نعرہ لگائیں تو فقط زبانی جمع خرچ نہ ہو بلکہ اہداف کے حصول کے ساتھ مقصدیت بھی حاصل ہو۔ کل جب ہم کسان کو کسی بھی فصل کی بمپر پیداوار کی نوید دیں تو اس کے ساتھ ہی ساتھ کسان سے فصل کی مکمل خریداری کی خوشخبری بھی دیں۔ لیکن ایسا صرف اور صرف جامع منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے ورنہ یہی نعرہ لگتا رہے گا چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کرے گا۔

No comments:

Post a Comment