February 07, 2011

ترقی زراعت اورقدرتی وسائل


تحریر: راجہ آصف محمود بھٹی
توانائی کے شعبے کے علاوہ ہمارے حکمرانوں نے قومی معیشت کی بنیاد زرعی شعبے کو بھی بری طرح نظر انداز کیا حالانکہ چھوٹے کسان دوست پالیسیوں، ماحول دوست زراعت، پانی چوری کے خاتمے، وسائل کی منصفانہ تقسیم، حقیقی کسان منڈیوں کے قیام، بلا امتیاززرعی ترقی اور پیداوار میں اضافے کے لئے آسان شرائط پر قرضے دے کر قومی معیشت اور زرعی پیداوار سے متعلق صنعتوں کو زبردست فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے چھوٹے کسانوں اور ماحول دوست زراعت کے لئے کام کرنے والی قابل ذکر تنظیم لوک سانجھ فاﺅنڈیشن اور بین الاقوامی شہرت کے مالک زرعی اقتصادی امور پر دسترس رکھنے والے ڈاکٹر شاہد ضیاءکی برسوں کی عرق ریزی اور تحقیق سے بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
بصورت دیگر ماہرین کے مطابق 2011 میں نہ صرف بینکوں بلکہ زرعی معیشت کو بھی زبردست چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افسوس کہ ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حکومت نے بھی 50 سال قبل شروع کئے گئے سینڈک اور کالا باغ ڈیم ایسے اہم منصوبوں کو بھی دفن کر دیا حالانکہ ان کی ابتدائی تیاریوں میں قوم کے اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن حکومت کی بے حسی کی وجہ سے یہ تمام تیاریاں بے سود ہو کر رہ گئیں۔ ماضی میں گوادر کی بندرگاہ سنگا پور کی ایک اہم کمپنی کو دی گئی۔ سنگا پور ایسا ملک ہے جو اس حوالے سے اپنی مثالی کارکردگی کی بنیاد پر زبردست شہرت رکھتا ہے لیکن حکومت نے سوچے سمجھے بغیر فیصلہ بدل دیا اور سیاسی بنیادوں پر سنگا پور سے بندرگاہ کا نظام واپس لے لیا گیا۔ اس طرح اہم سیاسی، اقتصادی، معاشی اور انتظامی اقدامات اپنی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں اور فیصلوں کی واپسی حکومت کی نا اہلی کا ثبوت پیش کرتے ہیں یہ معاملہ صرف حکمران جماعت تک ہی محدود نہیں بلکہ ہماری اکثر و بیشتر سیاسی جماعتیں بھی اس طرز عمل کا مظاہرہ کرتی نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں بعض سیاسی جماعتوں نے حکومت کو چلتا کرنے کے لئے حکومتی اتحاد سے الگ ہونے کے نعرے لگائے لیکن جلد ہی یہ نعرے خاموشی میں بدل گئے اور اب یہی جماعتیں حکومت سے اتحاد و تعاون کا تاثر دے رہی ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ حکومت کو قومی اثاثوں کی ضرورت، اہمیت اور ان کی قیمتوں کا احساس تک نہیں سٹیل مل اس کی واضح مثال ہے جسے حکمرانوں نے 21 ارب روپے میں نج کاری کے ذریعے فروخت کرنے کا پروگرام بنایا جیسا کہ خریداروں میں بعض غیر ملکی سرمایہ کار بھی شامل تھے حالانکہ اس مل سے ملحقہ اراضی کی قیمت بھی 21 ارب روپے سے کئی گنا زیادہ بتائی جاتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے کاموں سے حکومت کس کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نج کاری کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔اگر ہوم ورک کے ساتھ ساتھ وہ متعلقہ شعبوں کے ماہرین سے وسیع تر مشاورت کا بھی اہتمام کرے تو قومی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔
اگر حکمران ان صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوتے تو ہوا، پانی، سورج کے علاوہ تھر کے کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کر کے تمام بحرانوں سے نہ صرف بچا جا سکتا تھا بلکہ عوام کو سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکتی تھی اس سے قومی معیشت کو بھی ہمہ گیر استحکام حاصل ہوتا اور عوام بھی مسائل و مشکلات کا شکار ہونے سے بچ جاتے۔ہوم ورک کے بعد منصوبہ بندی کرنے والی حکومتوں کو بار بار فیصلے واپس لینے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور ان پر عوام کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن ہمارے سیاسی جنگ نے اس قدر الجھا رکھا ہے کہ ان کے پاس اہم قومی مسائل پر غور کرنے اور ان کے فیصلوں کے لئے وسیع تر مشاورت کا اہتمام کرنے کا وقت ہی نہیں بچتا۔ یہ صورتحال اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ حکمران سیاسی لڑائی اور اپوزیشن سے محاذ آرائی میں نہ الجھیںوزارت حج میں کرپشن کے بعد اب حج آپریشن کی ذمہ داری وزارت خارجہ اور تیل کی قیمتوں کے تعین کی ذمہ داری پارلیمانی کمیٹی کو سونپنے سے بھی بات ثابت ہوتی ہے۔
جہاں تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق ہے اس کا دارومدار عشروں سے صرف ایک ایسی کمیٹی پر ہے جو صرف پٹرولیم کمپنیوں کے مالکان پر مشتمل ہے ظاہر ہے کہ یہ کمیٹی مالکان کے مفادات ہی کا تحفظ کرے گی ماضی کے وزیر اعظم وزیر خزانہ شوکت عزیز نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کیا کمیٹی میں حکومت کا کوئی بھی نمائندہ نہیں؟ حکومت کو چاہئے کہ ہر فیصلہ کرنے سے پہلے ہوم ورک کی عادت ڈالے تاکہ جو بھی فیصلہ ہو وہ واقعی ملک و قوم کے مفاد میں ہو اور عوام کو قدم قدم پر پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
حکمران بعض فیصلے سوچ سمجھ کر اور عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر نہیں کرتے جس کے نتیجے میں انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے اس پر طرہ یہ کہ ملک میں موجود قدرتی وسائل کے موثر اور نتیجہ خیز استعمال کے لئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کے لئے افرادی قوت کی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ گیس اور بجلی کے شدید بحران کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ سورج سے 29 لاکھ اور ہوا سے 50 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے سندھ میں تھر کے علاقے میں کوئلے کے اربوں ٹن ذخائر سے ملک ڈیڑھ سو سال تک بجلی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ متبادل توانائی ڈویلپمنٹ بورڈ آف پاکستان نے 2030ئ تک ہوا اور سورج سے 9700 میگا واٹ بجلی پیدا کر کے 7784 دیہات کو روشن کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جو قابل تعریف ہے۔ بشرطیکہ یہ منصوبہ ماضی کی طرح ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے صرف ہوائی منصوبہ نہ ثابت ہو۔
 

No comments:

Post a Comment