February 07, 2011

جرائم کی نئی دنیا


تحریر: احمدنور
کمپیوٹر کی ایجاد سے عام لوگوں کو بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں اور ان کیلئے ترقی کی ایسی نئی راہیں کھلی ہیں جن سے وہ اس سے پہلے واقف نہ تھے تاہم انٹرنیٹ کے ذریعے جرائم پیشہ افراد کی ایک نئی نسل بھی سامنے آرہی ہے جو پاکستان سمیت پوری دنیا میں آباد ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے آپریشنل انچارج اظہر محمود نے کہا کہ پاکستان میں انٹرنیٹ پر ہونے والے ستر فیصد جرائم کا تعلق پلاسٹک منی ٹرانزیکشن فراڈ یعنی جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ سے ہے جس کے ذریعے لوگوں کے کریڈٹ کارڈز کے نمبروں کو مختلف طریقوں سے چوری کر کے پیسے نکلوا لیے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان میں کریڈٹ کارڈ کے مالک زیادہ تر لوگ اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے کہ وہ رقم کی ادائیگی کیلئے جب کسی کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیتے ہیں توان کے ساتھ فراڈ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں 2007ءسے پہلے انٹرنیٹ جرائم پر قابو پانے کا کوئی واضح قانون موجود نہیں تھا اورپریونشن آف ای کرائم آرڈیننس کا قانون کافی عرصہ تک متنازعہ رہا۔ تاہم 2007ءمیں قانون نافذ ہونے کے بعد بھی انٹرنیٹ جرائم میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
اس قانون پر عملدرآمد کا اختیار ایف آئی اے کو دیا گیا تھا جو کسی بھی مشکوک شخص یا ادارے کا کمپیوٹر سسٹم، لیپ ٹاپ، موبائل فون، کیمرہ وغیرہ شک کی بنیاد پر اپنی تحویل میں لے سکتی ہے اور اسے گرفتار بھی کرسکتی ہے۔ ایف آئی اے حکام نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں مبینہ طور پر سمگل ہو کر آنے والے وائٹ کارڈز پاکستان میں پلاسٹک منی فراڈ یعنی جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ وائٹ یا سفید کارڈ جنہیں بعد میں جعلی کریڈٹ کارڈز میں تبدیل کر دیا جاتا ہے، چین، اٹلی، جنوبی افریقہ، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ملائیشیا کی مارکیٹوں میں دستیاب ہیں اور انہیں وہاں سے کسی روک ٹوک کے بغیر پاکستان لایا جارہا ہے۔ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے آپریشنل انچارج اظہر محمود نے بتایا کہ ہیکرز یہ کارڈز محدود تعداد میں اپنے ذاتی سامان میں رکھ کر لے آتے ہیں کیونکہ ان کارڈز کو پاکستانی ائیرپورٹس پر موجود سکینر مشین میں چیک نہیں کیا جا سکتا۔ محمد اظہر نے بتایا کہ بڑی کمپنیاں بھی یہ وائٹ پلاسٹک کارڈز استعمال کرتی ہیں۔ ان کارڈز کو ملازمین کے شناختی کارڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور ان کارڈز پر لگی مقناطیسی پٹی کو مشین کے سامنے کرنے سے ملازمین کا دفاتر میں داخلہ ممکن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ ان کارڈز کا غلط استعمال بھی کیا جا رہا ہو۔
سائبر کرائم ونگ کے انچارج کا کہنا ہے کہ ان کے محکمے نے ہیکرز سے سینکڑوں کی تعداد میں یہ کارڈز برآمد کیے ہیں۔ ان کے بقول ان کارڈز کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے کے بعد اس پر موجود ڈیٹا یا ریکارڈ کو ختم کر کے کارڈ تلف کر دیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق سائبر کرائم میں مالی فراڈ کے لیے وائٹ کارڈ مختلف طریقوں سے استعمال ہورہا ہے۔ ایک طریقے کے تحت ہیکرز کسی بینک کے کمپیوٹر نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر کے اس کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور اس ڈیٹا کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے بعد وائٹ کارڈز پر کوڈنگ کر کے جعلی کریڈٹ کارڈز تیار کر لیے جاتے ہیں۔ دوسرے طریقے میں دکاندار یا تاجر ہیکرز کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ جب گاہک خریداری کرنے کے بعد دوکان کے کاونٹر پر جاکر رقم ادا کرنے کیلئے اپنا کریڈٹ کارڈ دیتا ہے تو دکاندارگاہک کے کریڈٹ کارڈ پر موجود کوڈ کو پوائنٹ آف سیلز مشین پاذ مشین کے ذریعے کوپی کر لیتے ہیں۔ ایک رسید پر خریدار کے دستخط لے کر خود رکھ لیتے ہیں اور دوسری رسید گاہک کو دے دی جاتی ہے۔ اس کے بعد پاذ مشین پر موجود ڈیٹا کو مکناطیسی پٹی ریڈر یا رائٹر (ایم ایس آر) کے ساتھ منسلک کر کے کمپیوٹر پر اتار لیا جاتا ہے اور وائٹ کارڈ استعمال کرتے ہوئے اسی طرز کا ایک اور جعلی کریڈٹ کارڈ تیار کر لیا جاتا ہے اور کریڈٹ کارڈ کے مالک کو پتہ بھی نہیں چلتا کہ اس کے کارڈ کی طرز کا ایک اور کارڈ تیار ہو چکا ہے جس کا غلط استعمال بھی ہوسکتا ہے۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق اس کے علاوہ پاکستان میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جہاں گاہک نے پٹرول ڈلوانے کے لیے پٹرول پمپ کے عملے کو اپنا کریڈٹ کارڈ دیا تو سکِمر مشین کے ذریعے کارڈ کا کوڈ (ٹریک ون،ٹو) چوری کر لیا گیا اور بعد میں عملے نے رقم کے عوض یہ کوڈ ہیکرز کے حوالے کر دیا۔ اظہر محمود نے بتایا کہ جرائم پیشہ افراد کے اس طرح کے ہتھکنڈوں کی وجہ سے غیر ملکی سیاح پاکستان آ کر اپنا کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے سے کتراتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ملک بھی بدنام ہوتا ہے۔سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر کے بقول پاکستان میں پلاسٹک منی فراڈ کے سب سے بڑے ملزم محمد خان کو گذشتہ برس گرفتار کیا گیا جس کے قبضے سے درجنوں وائٹ کارڈز اور ان سے تیار کیے گئے جعلی کریڈٹ کارڈز برآمد کیے گئے۔ محمد خان نے بیرون ملک سے کمپیوٹر میں ماسٹرز(ایم سی ایس) کر رکھاہے۔ تادمِ تحریر عدالت نے محمد خان کو چالیس سال قید کا حکم سنایا ہے۔اس کے علاوہ گذشتہ برس ایف آئی اے نے سائبر کرائم کے سولہ کیسز رجسٹر کیے جن میں سے گیارہ کیسز جعلی کریڈٹ کارڈ کے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں درجنوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور کروڑوں روپے کی بازیابی کی گئی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس فراڈ سے بچا کس طرح جائے۔ پہلا طریقہ جس کے تحت جرائم پیشہ افراد کسی بینک کے کمپیوٹر نیٹ ورک تک رسائی حاصل کر کے اس کا ڈیٹا چوری کرتے ہیں اور ان معلومات کو اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کرنے کے بعد سادہ کارڈ یعنی وائٹ کارڈز پر کوڈنگ کر کے جعلی کریڈٹ کارڈز تیار کر لیتے ہیں اس سے ایف آئی اے حکام کے مطابق عام آدمی کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے کیونکہ بقول ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ چوہدری منظور اس کا ذمہ دار بینک ہوتا ہے اور بینک آپ کی لوٹی رقم کی ادائیگی کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
 
دوسری صورت جس میں لوگ اپنا کارڈ دکانوں یا پیٹرول پمپوں پر رقم کی ادائیگی کیلئے دیتے ہیں اس میں فراڈ سے بچنے کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ جب آپ دوکان یا پیٹرول پمپ پر کارڈ دیتے ہیں تو اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل مت ہونے دیں۔ سیلز مین پر نظر رکھیں یعنی اس کارڈ کے ذریعے رقم کی ادائیگی اپنے سامنے کروائیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کریڈٹ کاڈرز کی تعداد میں مالی سال 2006-07کے دوران چوہتر فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا تاہم مالی سال 2007-08کے دوران اس میں تقریباً نو فیصد کمی دیکھی گئی ہے اوراب پاکستان میں پندرہ لاکھ افراد کریڈٹ کارڈز استعمال کررہے ہیں۔تاہم اس کے برعکس ڈیبٹ کارڈ استعمال کرنے والوں کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے جس میں تقریباً پچیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔
پاکستان کے علاوہ جعلی کریڈٹ کارڈ فراڈ قریباً پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ چھ اگست کو ایک خبر آئی کہ امریکی حکام نے ملک کے سب سے بڑے کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ فراڈ کے معاملے میں 11 افراد پر الزامات عائد کیے ہیں۔ان افراد پر 40 ملین کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کے نمبر چرا کر انہیں دوسرے لوگوں کو فروخت کرنے کا الزام ہے۔برطانیہ، سپین، روس ،ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی اس طرح کے کیسز سامنے آتے رہتے ہیں لیکن ان ممالک کے پاس جدید سہولتیں موجود ہونے کی بنا پر وہاں کرائم ریٹ کم ہے۔تاہم پاکستان کے پاس ایسی سہولتوں کا فقدان نظر آتا جن کے ذریعے انٹرجرائم پر موثر طریقے سے قابو پایا جاسکے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے حکام نے بتایا ہے کہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے انٹرنیٹ جرائم پر قابو پانے کے لیے ان کے محکمے کے پاس مطلوبہ سہولتیں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہ اب تک سائبر کرائم کی ابتدائی جزیات ہی سیکھ سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو غیر ملکی ایجنسیاں ان کی ٹریننگ کے لیے آتی ہیں وہ انہیں آج سے پندرہ سال پرانی معلومات فراہم کرتی ہیں جس سے کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ انٹرنیٹ پر ہونے والے جرائم پر قابو پانے کیلئے حکومت پاکستان نے اکتیس دسمبر 2007ئ کو ’پریونشن آف ای کرائم آرڈیننس‘ نافذ کیا تھا اوراس قانون پر عملدرآمد کا اختیار ایف آئی اے کو دیا گیا تھا۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں ایف آئی اے کو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں جن کے غلط استعمال کا بھی خدشہ ہے۔

No comments:

Post a Comment