February 07, 2011

قدرتی ذخائر اور کرپشن

سید محمد عابد

خدانے انسانوں کو بیش بہا خزانوں سے نوازا ہے، یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ کس کوخزانہ دے۔ دنیا میں متعدد ممالک کے پاس قدرتی ذخائر موجود ہیں ۔ ان ذخائر میں کوئلہ، گیس، چاندی ، ہیرے ، سونا اور دیگر دھاتیں شامل ہیں۔ قدرتی ذخائر کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں، ان ذخائر کا موئثر استعمال ملک کو ترقی کی جانب لے جاتا ہے جبکہ ذخائر کا ضیاع بربادی کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ متعدد اقوام نے اپنے وسائل کا صحیح طور پر استعمال کیا اور ترقی ان کا مقدر بن گئی۔ ہمارے ملک پاکستا ن کا صوبہ سرحد اور بلوچستان قدرتی ذخائر سے مالا لال ہے۔ صوبہ سندھ میں تھر کے مقام پرکوئلے کا دنیا میں ساتواں بڑا ذخیرہ موجود ہے اور اس ذخیرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے تیل کے ذخیرے سے بھی بڑا ذخیرہ ہے ۔ڈاکٹر ثمر مبارک کے مطابق تھر کول ذخائر کے ذریعے اگلے 500 سے 800 سال تک بجلی کی پیداوار ممکن ہے۔ صوبہ بلوچستان میں سوئی کے مقام پر گیس کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔
ریکوڈک جو سیندک سے پہلے نوکنڈی کے کوہ دلیل میں واقع ہے اس منصوبے پر ابتدائی کام آسٹریلیا کی ایک شہرہ آفاق مائننگ کمپنی بی ایچ پی کو 1993ءمیںملا جس کے تحت حکومت بلوچستان کو 25 فیصد حصص کی بنیاد پر کمپنی کو کام شروع کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس زمانے میں آسٹریلیا کی اکثر کانیں بند ہوگئی تھیں چنانچہ آسٹریلیا نے نہایت ہی آسان شرائط پر ریکوڈک پر کام شروع کردیا اور اس کے ابتدائی کھوج اور کھدائی پر تقریباً 230 ملین ڈالر خرچ کئے اور اس کی ابتدائی فیزیبلٹی رپورٹ بھی تیار کرلی گئی۔بعد ازاں بین الاقوامی منڈی میں سونے اور چاندی کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئیں اور آسٹریلین کمپنی بی ایچ پی نے چلّی اور کینیڈا کے ایک جوائنٹ کنسورشیم یعنی ٹیتھیان کاپر کمپنی کو 230 ملین ڈالر کی ادائیگی کردی۔اس طرح ٹی سی سی ریکوڈک کی مالک بن گئی اور تاحال یہ کمپنی بھی ریکوڈک پر 200 ملین ڈالر خرچ کرنے کی دعویدار ہے اور اس ذخیرے پر اپنا حق جتانے کی کوشش کر رہی ہے۔
بلوچستان کی حکومت نے کنیڈا اور چلی کی مشترکہ کمپنی ٹیتھیان کاپر کے ساتھ 40 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا‘ جس کے تحت یہ کمپنی بلوچستان میں تانبے اور سونے کے ذخائر ڈھونڈ کر 30 سال تک خام مال کی شکل میں برآمد کرے گی جبکہ اسی خام مال سے پاکستان کے اندر تانبہ اور سونا نکال کر برآمد کیا جائے تو جو مال ہم نے 40 ارب ڈالر میں بیچ دیا ہے اس کی مالیت 500 ارب ڈالر یااس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ان ذخائر کی کھوج کے لئے اچھی مشینری اور افرادی قوت درکار ہوتی ہے اورریکوڈک منصوبے پر خود کام کرنے کی صورت میں پاکستان کی عوام کو روزی روٹی بھی فراہم کی جا سکتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیتھیان کاپر کمپنی ریکوڈک سے حاصل شدہ خام مال حکومت بلوچستان یا حکومت پا کستان کو دینے کی مجاز نہیں ہو گی یعنی حاصل شدہ خام مال بیرون ملک فروخت کیا جائے گا اور ملک کو ذخائر میں سے40 ارب ڈالر کے علاوہ اورکچھ نہیں ملے گا۔ ممتازایٹمی سائنسدان اور پلاننگ کمیشن کے رکن سائنس و ٹیکنولوجی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق ریکوڈک کی سونے و تانبے کی کانوں کے ایک چھوٹے سے حصے ای ایل 5- میں ہی 270 ارب روپے ڈالر مالیت کے ذخائر موجود ہیں اور اسی بیلٹ میں بہت سے بڑے ذخائر بھی موجود ہیں جن سے ملک کومزید کئی ارب ڈالر کی آمدنی ہوسکتی ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں ریکوڈک کے قدرتی ذخائر سے تانبے کی تلاش اور تانبے اور سونے کو ریفائن کرنے کی ملک میں صلاحیت موجود ہے جبکہ غیرملکی کمپنی ، ان ذخائر کو خام حالت میں بیرون ملک لے جاناچاہتی ہے۔ڈاکٹرثمر مبارکے مطابق ریکوڈک کی کان میں یورنیم صفر اعشاریہ صفر دو فیصد ہے جسے نکالنا مشکل ہے، پاکستان کے پاس تانبا نکالنے کا تربیت یافتہ عملہ موجود ہے۔ ابھی بلوچستان کو سالانہ16 کروڑ ڈالر ریکوڈک منصوبے پر ملتے ہیں جبکہ اگر حکومت اس منصوبے کو خود شروع کرے تو روزگار کے ساتھ ساتھ کچھ عرصہ میں2 ارب ڈالر ملنا شروع ہو جائیں گے۔ ایک انٹرویو میں ٹیتھیان کاپر کمپنی پاکستان لمیٹےڈ کے چیف ایگزیکٹو اوگرہارڈ وان بوریس نے کہا ہے کہ بلوچستان میں ڈسٹرکٹ چاغی کے ریکوڈک منصوبے میں تقریباً 5.9 ارب ٹن معدنی ذخائر موجود ہیں 2.2 ارب ٹن قابل معیشت قدرتی حالت میں پائی جانے والی معدنیات میں اوسطاً تانبے کا گریڈ 0.5 فیصد اور سونے کا اوسطاً 0.3 گرام فی ٹن حاصل ہونے کا اندازہ ہے جبکہ حقےقت کچھ اور ہے۔ معدنی ذخائر ٹیتھیان کاپر کمپنی کے اندازے سے بہت زیادہ ہیں۔ ریکوڈک جیسے پروجیکٹ شروع کرنے کے لئے افرادی اور مشینری قوت درکار ہوتی ہے جبکہ پاکستانی عوام کو انگریز بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں۔
بلوچستان کے علاقے ریکوڈک میں سونے اور تانبے کا ذخیرہ دنیا کے چندبڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کھربوں ڈالر کے پروجیکٹ پر کئی بین الاقوامی مائننگ کمپنیاں اسے حاصل کر نا چا ہتی ہےں۔ ریکو ڈک کے یہ ذخائر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور بین الاقوامی مائننگ کمپنیوں کے درمیان حل طلب مسئلہ ہے۔ بلوچستان کی عوام اس بات کو سوچ سوچ کر پریشان ہو رہی ہے کہ کیا اس اربوں ڈالر کے منصوبے کا حکومت بلوچستان کو کوئی فائدہ ہو گا بھی یا نہیں۔ کہیں بلوچستان کے سوئی گیس، سیندک اور لسبیلہ کے لیڈ اور زنک پروجیکٹ کی طرح ریکوڈک منصوبہ بھی تو کوڑیوں کے داموں تو نہیں بک جائے گا۔ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس عظیم قومی دولت کو پاکستان اور بلوچستان کے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا ذریعہ بنائیں گی۔یہ بات تہ ہے کہ بین الاقوامی کمپنیاں بہت بے رحمی اورچالاکی سے اس منصوبے کا خام مال حاصل کر نا چا ہتی ہیں اور اسی لئے اربوں ڈالر کی رشوت کا سہارا بھی لیا جا رہا ہے۔
ایک تخمینے کے مطابق ریکوڈک پراجیکٹ کے اثاثوں کی مالیت پچیس بلین امریکی ڈالر ہے جبکہ میٹریل کی حقیقی قیمت جو کہ نکالی جائے گی تقریباً 125 بلین امریکی ڈالر ہے۔ یہ کوئی معمولی ذخائر نہیں ہیں جوکسی بھی ملک کو دے دئے جائیں، ان ذخائر پر پاکستان اور حکومت بلوچستان کا حق ہے اور حکومت پاکستان کو ہی ان ذخائر کی کھوج اور نکالنے کا انتظام کرنا چائیے۔ انگریز کیونکہ ہماری حکومت کی سست عادات سے واقف ہیں اسی لئے جب ایسے پروجیکٹ پر کوئی بھی انگریزوں کی کمپنی کا م کرتی ہے تو وہ ہمیں کمزور ترین فریق سمجھ کر اپنی طے شدہ شرائط پر ہم سے کھربوں ڈالر کمانے اور لوٹنے کی کوشش کرتی ہیں جس میں ان کمپنیز کو کافی حد تک کامیابی بھی ہو جاتی ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ بلوچستان حکومت نے سونے اور تانبے کے حقیقی تخمینے اور دستاویزات میں پائے جانے والے سکم کو دور کرنے کے لئے ٹتھران کوپر کمپنی سے معاہدے پر نظر ثانی کررہی ہے۔ لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ آزادی کے 63 سال بعد بھی اب بھی ہم قیمتی معدنی دولت کی سروے اور نکالنے ،مائننگ و ریفائننگ کے لئے غیر ملکی کمپنیوں پر انحصار کررہے ہیں۔ پاکستان اب ترق ی ےا فتہ ممالک میں شمار کیا جاتا ہے اور ہمارے پاس وہ سہولیات موجود ہیں جن کے ذریعے قیمتی ذخائر کی کھوج اور استعمال کیا جا سکتا ہے چنانچہ حکومت پاکستان ان ذخائر کی کھوج اور حاصل شدہ خام مال کے لئے خود سے کوشش کرے تاکہ ملک کوکچھ فائدہ ہو۔

 http://www.technologytimes.pk/mag/2011/feb11/issue01/qudrat_zakhair_or_craption_urdu.php

No comments:

Post a Comment