March 03, 2011

دنےا کا حفا ظتی حصار



تحریر: نگار علی
اوزون آکسیجن کے تین ایٹمز کے ساتھ ایک شفاف اور نظر نہ آنے والی گیس ہے جو قدرتی طور پر فضا میں موجود ہوتی ہے۔ اوزون کی نوے فیصد مقدار زمین کی سطح سے پندرہ تا پچپن کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پائی جاتی ہے۔فضا میں اوزون کی تہہ زمین پر حیات کو سورج کی الٹراوائلٹ بی شعاعوں کے مضراثرات سے بچائے رکھتی ہے۔
گویا اوزون انسانی و حیوانی حیات کی بقا کی ضامن ہے یعنی اوزون کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہے۔گزشتہ پچاس برس کے دوران کچھ مصنوعی کیمیائی ماددوں نے اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچایا ہے جن میں کلورو فلورو کاربن (CFCs )، ہیلنز، کاربن ٹیٹرا اکلورائیڈ (CTC),برومائیڈ اور میتھائل کلورو فون شامل ہیں اور یہ اوزون میں شگاف یا سوراخ کہلاتا ہے۔
اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے ان مادوں کا استعمال عام طورپر انرجی سیور بلب، ڈیپ فریزرز، ریفریجریٹرز، کار، ایئر کنڈیشنر، فوم، ڈرائی کلیننگ، آگ بجھانے والے آلات، صفائی کے لئے استعمال ہونے والے کیمیکل اور فیومیگیشن میں ہوتاہے۔
اوزون کی تہہ بننے کا عمل کروڑوں سال سے جاری ہے مگر ہوا میں موجود نائٹروجن کے کچھ مرکبات اوزون کی مقدار کو ایک خاص حد سے زیادہ بڑھنے نہیں دیتے۔ 1970 ءکی دھائی میں یہ انکشاف ہوا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے کچھ مرکبات اوزون کی اس تہہ کو تباہ کررہے ہیں۔ یہ کیمیائی مرکبات کلوروفلور وکاربن(سی ایف سی) کہلاتے ہیں جو کہ سردخانہ اور ایروسول اسپرے میں استعمال ہوتے ہیں۔
یہ فضا میں جا کر سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں کی وجہ سے اپنے اجزاءمیں تحلیل ہو کر کلورین بناتے ہیں جو اوزون کی تہہ کو تباہ کر دیتی ہے۔ اسی طرح بعض مصنوعی کھاد میں استعمال ہونے والے مرکبات مثلاً نائٹرس آکسائیڈ بھی اوزون کے لئے تباہ کن ہیں۔گندھک کے تیزاب کو پوٹاشیم پر مینگنیٹ سے ملانے پر اوزون گیس خارج ہوتی ہے لیکن اس عمل کے لئے سخت احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ دھماکہ ہو سکتا ہے۔ اوزون کی تہہ زمین کی سطح سے تقریباً اُنےس کلو میٹر اوپر اور 48 کلو میٹر کی بلندی تک موجود ہے جو سورج سے آتی ہے اور بالائے بنفشی (الٹراوائلٹ) شعاعیں آکسیجن کے ساتھ نورکیمیائی عمل (photochemical reaction) کر کے اوزون بناتی ہیں۔ اگر یہ بالائے بنفشی شعاعیں اس طرح یہاں ختم نہ ہو جائیں تو یہ نیچے زمین پر پہنچ کر جانداروں میں سرطان اور نباتات کی تباہی کا باعث بنیں گی۔ اگر نباتات کو قابل قدر نقصان پہنچ جائے تو ہوا میں کاربن ڈ اکسائیڈ کی مقدار بڑھنے لگے گی اور گرین ہاو ¿س کی وجہ سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ اوزون انسانی پھیپھڑوں کے لئے بھی سخت نقصان دہ ہوتی ہے لیکن انسان اس کی زد میں اس لئے نہیں آتا کیونکہ بلند ترین پہاڑ کوہ ہمالیہ کی اونچائی بھی نو کلو میٹر سے کم ہے جبکہ اوزون کی تہہ اُنےس کلو میٹر اوپر جا کر شروع ہوتی ہے۔ چلّی یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی طرف سے دارالحکومت سانٹیاگو میں ایک غبارہ چھوڑا گیا جس کا مقصد فضا میں اوزون کی سطح جانچنا تھا۔ غبارہ 35 ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچ کر فضا میں اوزون کی سطح کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت، دباو ¿ اور ہوا میں نمی کا تعین کرے گا۔
کیمیائی مادوں کے استعمال سے پیدا ہونے والی بالائے بنفشی شعاعیں فضا پر تنی اوزون کی تہہ کے کم ہو نے کے باعث بن رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق چلی میں بالائے بنفشی شعاعوں کی سطح معمول سے زیادہ ہے جو گرمیوں میں اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اوزون کی بگڑتی صورت انسانی بقا کے لئے بہت نقصان دہ ہے جس سے کینسر، جلدی بیماریاں اور آنکھوں کی بیماریوں میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے۔
جنگلات کا بے دریغ کٹاو ¿، سڑکوں پر دھواں دینے والی گاڑیوں اور ویگنوں کے استعمال میں اضافہ، کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں کا مناسب بندوبست نہ ہونا اور ائیرکنڈیشن پلانٹس کے بے تحاشہ استعمال نے کرئہ ارض کا نقشہ تبدیل کر دیا ہے۔ ابھی تک یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اوزون کی تہہ میں پیدا ہونے والا یہ شگاف زیادہ سے زیادہ کتنی وسعت اختیار کرے گا۔
تاہم شگاف کے اتار چڑھاﺅ اور موجودہ رقبے کو دیکھتے ہوئے خیال کیا جاتا ہے کہ رواں سال کے دوران شگاف کے رقبہ میں گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں کمی آئے گی۔ ہرسال موسم بہار کی آمد کے ساتھ قطب شمالی میں اوزون کی تہہ میں شگاف پڑنا شروع ہوجاتا ہے جس کے باعث زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی دوسری گیسوںکی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے۔
انسانی زندگی مےں اوزون کی تہہ کو مضر شعا عوں سے بچانے کے لےے کم سے کم اُنچائی پر پروازےں ،چھوٹے را کٹ پروازےں،آکسےجن کی پےداوار مےں اضافہ کے لےے پودوں کی کٹائی کو کم کےا جا ئے،فےکٹرےوں سے نکلنے والے دھوئے کو روکا جائے ، جہاں تک ممکن کو اوزون دوست اشےاءکی پےدا وار کو معاونت فرا ہم کی جائے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے ماہرین نے کہا ہے کہ حفاظتی اقدامات کے تحت انسانی زندگی کو مضر شعاعوں سے بچانے والی اوزون کی تہہ صدی کے وسط تک کیمیائی اثرات سے محفوظ ہو سکتی ہے تاہم سرد ترین علاقوں میں اس حوالہ سے صورتحال بہتر ہونے میں طویل عرصہ درکار ہو گا۔
موسمیات کے عالمی ادارہ کے سینئر سائنٹفک آفیسر گائپر بریتھن کے مطابق اوزون کی تہہ میں کمی اب زیادہ دیر تک برقرار رہے گی تاہم اس میں اوزون کی تہہ میں اضافہ کا بھی کوئی امکان نہیں ہے اور 2050ءتک اوزون کی تہہ میں کمی ہونے کا سلسلہ بند ہوجائے گا اور یہ تہہ اپنی اصل حالت میں بحال ہو جائے گی کیونکہ اس وقت تک فضا ءمیں زیادہ ٹھنڈے اور اوزون کی تہہ کیلئے نقصان دہ مادے پیدا ہونا یا ان کے اخراج کا سلسلہ بند ہو جائے گا۔
اوزون کی تہہ کو بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔اِس معاہدے کا براہِ راست فائدہ صحت عامہ کو بھی پہنچتا ہے ۔واضح رہے کہ اوزون کی تہہ زمین پر حیات کو الٹرا وائلیٹ شعاو ¿ں سے محفوظ رکھتی ہے۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کے آخر تک اوزون کی تہہ باریک ہوتی جارہی تھی جس کی ایک وجہ ایروسول، ایکس ریزاور ریفریجریٹروںسے خارج ہونے والا کیمیائی مادہ ہے۔اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (یو این ای پی) اور عالمی ادارئہ ماحولیات نے کہا کہ اوزون کی تہہ میں مزید چھید نہیں پیدا ہورہے جس کے باعث یہ اس صدی کے وسط میں کا فی حد تک اصل حالت میں واپس آجائیگی۔ قطبی خطے سے باہر کی اوزون تہہ ممکنہ طورپر2048ءتک1980ءوالی سطح تک بحال ہوجائیگی جبکہ قطبِ جنوبی کے اوپر اوزون کی تہہ میں بننے والے سوراخ کو صحیح حالت میں واپس آنے کے لیے2078ءتک کا عرصہ درکار ہوگا۔
صوبائی حکومت اور محکمہ ماحولیات کو سنگاپور اور ملائیشیا کے ماڈل کو سامنے رکھتے ہوئے جلد از جلد مثبت اقدام کرنے چاہئیںتاکہ انسان غیر ذمہ داریوں سے ماحولیاتی نظام کو مزید متاثر ہونے سے بچایا جا سکے۔اوزون کو تبائی سے بچائےں اوراوزون دوست مصنوعات کا استعمال اپنائےں۔

No comments:

Post a Comment