March 06, 2011

میری اگلی نظر ستاروں پر





انسان کس کشمکش میں گرفتار ہے خود بھی معلوم نہیں ، پیسہ کمانے کی دُھن ، ترقی کرنے کا جنون ، یہ سب باتیں تو ایک طرف کُرہِ ارض کی حدود سے باہر دوسرے سیاروں پر بھی زندگی تلاش کرنے لگا مگر اس بات سے بے خبر ہوتا جارہا ہے جس ماں کی گود میں بیٹھ کر وہ باہر کی دنیا کے نظارے کر رہا ہے جو ایک دن اپنے ہاتھ سے اسی گود کو اُجاڑنے والا ہے ۔ آج پوری دنیا گلوبل وارمنگ کے ایک بڑے مسئلے کا شکار ہے ۔
کچھ دن پہلے ہی میں نے ایک نجی ٹی وی چینل پر خبر سنی تھی کہ کئی ہزار ٹن برف کا تودا ایک جھیل میں آکر گِرا ہے ۔ شاید یہ خبر آپ لوگوں کی نظر سے بھی گزری ہو مگر سب لوگوں نے اس خبر کو سنا اور اَن سُنا کر دیا ہوگا ۔ کیا کسی نے یہ سوچا ایسا کیوں ہوا اُس گلیشیئر نے کیوں اپنی جگہ چھوڑی نہیں ، کیوں ؟آپ لوگوں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے عطاءآباد میں زمین سرکنے سے ایک قدرتی جھیل بن گئی تھی جو آج بھی موجود ہے اور اُس میں ملین گیلن پانی بھی ہے کئی دیہات زیرِ آب آگئے ہیں کیا آپ لوگوں نے سوچا کہ اُن لوگوں پر کیا گزری ہوگی جب ان کے مکانات اس آفت کا شکار ہورہے تھے ۔ سب نے یہ سوچ کر دل کو تسلی دی جو خداکو منظور ۔
لمحہ فکریہ ہے کہ ہم خود آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں دن باون لائنز سٹینڈرڈ بنانے کے لیے درختوں کی کٹائی کیے جارہے ہیں۔ آج سے دس سال پرانا اسلام آباد جس میں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ نظر آتا تھا ، آج سوائے گاڑیوں اور شہراﺅں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کچھ درخت کمبخت پولن الرجی کے نام پر کاٹ دیے گئے اور کچھ دہشت گردی کے نام پر قربان ہوگئے۔ آج یہ عالم ہے کہ صبح گھر سے نکلو شام تک اسلام آباد کے تمام درختوں کی گنتی مکمل کر سکتے ہو۔ اسلام آباد کو کیا رونا یہ تو دارالحکومت ہے ، ملکہ کوہسار مری ، اسلام آباد کا قریب ترین Hill Station جہاں بھی ٹمبر مافیا نے لوٹ مچا رکھی ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر درختوں کا خاتمہ ہورہا ہے ، لاکھوں روپے کی لکڑی قانونی اور غیر قانونی طریقے سے سمگل کی جارہی ہے ۔ ہماری چاہت کیا ہے ہم کس کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اگر یہ ہی عالم رہے تو جلد ہی سائنس لینا بھی مشکل ہوجائے گا ۔ جنگلات کا کٹاﺅ بھی گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہا ہے ۔ 2010ءمیں آنے والا سیلاب اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اگر اسی رفتا ر سے ملک کے اس قیمتی سرمائے کو ختم کیا گیا تو جلد ہمیں اس سے زیادہ بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
درخت فضاءسے Carbodioxide حاصل کر کے Oxygen پر وائڈ کرتے رہتے ہیں۔ یہ دھواں زمین کے گِرد حفاظتی دیوار (O'Zone) کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ Ozone Layer سورج سے نکلنے والی Ultra Violet Rays کو زمین تک پہنچے سے روکتا ہے۔ امریکہ کے قریب Ozone Layer میں سوراخ ہونے لگا ہے جو انتہائی خطرے کی بات ہے۔
اب ہم نظر ڈالتے ہیں پنجاب کے کچھ حصے پر جہاں موسم میں آنےوالے اس بدلاﺅ مین کچھ عجیب سے ہی مناظر دکھائے۔آج سے دو تین دن پہلے لاہور کچھ اتنا سرد ہوا جس کا لاہور کی عوام کبھی سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ مارچ کا مہینہ جب سردی جا رہی ہوتی ہے اور بہار کی آمد ہو تی ہے، اچانک سردی لوٹ آئے وہ بھی ایسی کہ لاہور جیسے شہر میں برف نظر آنے لگے موسم کی یہ تبدیلی قابل فکر ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق مارچ کے پورے مہینے میںبارشین ہونے اور سردی برقرار رہنے کا امکان ہے۔ اگر سردی اسی شدت سے پڑے گی تو واضح رہے گرمی بھی اپنا زور دکھائے گی۔ موسموں کی اس شدت سے بچنے کے لئے اور زمین کو بچانے کے لئے یہ بات بہت ضروری ہو گئی ہے کہ قدرتی طریقے سے اس زمین کی حفاظت کی جائے۔
موسم سرما اپنے آخری ایام میں ہے اور بہار کا موسم آنے والا ہے شجر کاری کے دن بھی آچکے ہیں، ہم لوگ موسمِ بہار کو خوابیدہ کر رہے ہیں مگر کسی کے دل میں اس بات کا خیال نہیں کہ چلو ایک درخت ہی لگالیں ، اور اپنا کل محفوظ کر لیں ۔ درخت فضاءسے نہ صرف Carbondioxide ختم کرتا ہے، بلکہ سورج کی گرمی کو بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے ۔ درختوں کی کاشت پر دھیان دینا وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کرنے والے کہیں اپنے سیارے زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھنا ۔

No comments:

Post a Comment