March 06, 2011

آبی حیات کو خطرہ



تحریر: صائمہ کرن
پانی کی آلودگی کے باعث آبی حیات خطرات میں مبتلا ہیں، آجکل دنیا بھر کے سمندروں کا یہ حال ہے کہ آلودگی کے باعث وہ سوڈا واٹر میں تبدیل ہورہے ہیں، ہم اس بات کو اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ سوڈا واٹر جو کہ عام پانی اور بہت زیادہ دباﺅ والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کا آمیزہ ہوتا ہے، جیسے ہی سوڈا واٹر کی بوتل کو ہم کھولتے ہیں تو کاربن دائی آکسائیڈ گیس بلبلوں کی صورت میں پانی میں سے باہر نکلنا شروع ہوجاتی ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس پانی کی خاصیت کو تیزابی بنا دیتی ہے۔ یہی حال اب دنیا بھر کے سمندروں کا ہے، کیونکہ ہمارے ماحول میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس تیزی سے سمندری پانی میں حل ہورہی ہے۔ جس کی وجہ سے سمندری پانی تیزابی خاصیت اختیار کرتا جارہا ہے۔ عام پانی کی 7PH ہوتی ہے ، سمندری پانی کی 8.2PH ہوتی ہے اور یہ ہزاروں برس سے رہی ہے ۔ لیکن گزشتہ ایک صدی میں تیل کے بے تحاشا استعمال کی وجہ سے سمندری پانی کی PH کم ہو کر 8.1 ہوچکی ہے، آئندہ چند عشروں میں سمندری پانی کی PH مزید کم ہو کر 8 پر آجائے گی اور جیسے سمندری پانی کی تیزابیت میں اضافہ ہوگا اس کی PH بتدریج کم ہوتے ہوئے 7 پر آجائے گی ، بظاہر یہ تبدیلی بہت معمولی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سمندری حیات کا خاتمہ ہوسکتا ہے کیونکہ فوسلز کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی میں سمندری پانی کی تیزابیت میں ہونے والی تبدیلیاں بہت سی آبی مخلوق کے خاتمے کا باعث بن گئی تھیں۔ حال ہی میں سکھر میں ایک نہر سے نایاب نسل کی انڈس بلائنڈ ڈولفن مردہ حالت میں پائی گئی ہے۔ وائلڈ لائف کے عملے کے مطابق اس ڈولفن کی عمر 25 سال تھی اور اس کی موت پانی زہر یلا ہونے کے باعث ہوئی ۔ چند ماہ پہلے کراچی کے ساحل پر ہرے رنگ کا کچھوا مردہ حالت میں پایا گیا جو کہ پاکستان میں آبی آلودگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دریائے ستلج کے کناے پر سینکڑوں مچھلیاں اور دیگر آبی حیات مردہ حالت میں نظر آتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق مچھلیوں کی 30 اقسام کو آلودگی کی وجہ سے شدید خطرہ ہے۔ دراصل سمندری پانی کی تیزابیت میں اضافے کی وجہ سے سمندری جانوروں کے خول بننا بند ہوجاتے ہیں کیونکہ تیزابیت کیلشیم کو جمع ہونے سے روک دیتی ہے۔ اس کے علاوہ خول والے جانوروں کے خول آہستہ آہستہ گھلنا شروع ہوجاتے ہیں تیزابیت کی وجہ سے خون میں آکسیجن جذب کرنے اور اسے اعضاءتک پہنچانے کی صلاحیت بھی کم ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ خول کے بغیر آبی جاندار یعنی مچھلیاں بھی متاثر ہوتی ہیں۔
اس مسئلہ کا حل یہ ہوسکتا ہے کہ ہم مستقبل میں زمین سے نکلنے والے تیل کا استعمال بند کردیں ۔ اس طرح ہمارے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ شامل ہونا بند ہوجائے گی۔ سمندری پانی کی تیزابیت میں زیادتی کا عمل رُک جائے گا۔ یہ بتدریج معمول پر آجائے گی اور اس عمل میں صدیاں نہیں لگیں گی کیونکہ یہ عمل محض چند عشروں میں مکمل ہوجائے گا، لیکن اگر ہم ایسا نہیں کرسکتے تو ہمیں کچھ ایسے طریقے تلاش کرنا ہونگے جن کی مدد سے سمندری پانی کو تیزابی ہونے سے روکا جاسکے ۔
ماحولیاتی آلودگی کے سبب پاکستان میں غیر انسانی حیاتیات کو پہنچنے والے نقصان کی خبر اہلِ پاکستان کے لئے اس لئے بھی عوامی سطح پر توبہ کی حقدار دکھائی نہیں دیتی کیونکہ پاکستان میں انسانی حیاتیات کی بقاءکے لئے سرے سے کوئی سرگرمی ہی دکھا ئی نہیں دیتی ۔ اگر اس طرح توبہ نہ کی گئی اور موثر اقدامات نہ کیے گئے تو متعدد سمندری حیاتیات ناپید ہوجائیں گی۔ آبی حیاتیات کے تحفظ کے لئے موثر اقدامات کرنا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔

No comments:

Post a Comment