March 06, 2011

گنے کی بہترین پیداوار، چینی کا بحران کیوں؟





پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی 60 سے 70 فیصد آبادی زراعت کے پیشے سے منسلک ہے کیونکہ زرعی ملک میں آٹے یا چینی کے بحران مشکل سے پیدا ہوتے ہیںجبکہ ہمارے ملک میں ہر سیزن میں یہ رونا رو یا جاتا ہے کہ ملک میں گنے یا گندم کی پیداوار کم ہوئی ہے جس کے باعث چینی یا آٹے کے بحران کا خدشہ ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کبھی چینی کے لئے قطار میں لگنا پڑتا ہے تو کبھی آٹے کے لیے۔۔۔ ہمارا ملک زرعی ہے اور دنیا میں گنا پیدا کرنے والا چوتھا ملک کہلایا جاتا ہے، پاکستان ایک ملین ہیکٹر رقبے پر گنے کی کاشت کرتا ہے پھر یہ بحران کیوں۔ آخر کیا وجہ ہے جو ملک اتنی پریشانیوں میں گھرا ہوا ہے۔ کیا عوام پاکستان میں صرف بحرانوں کو دیکھنے کے لئے ہی رہ گئی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے بارے میں سوچ کر ہر انسان پریشان ہو جاتا ہے۔
گنا پنجاب‘ سندھ اور صوبہ سرحد میں کاشت ہوتاہے۔ سب سے زیادہ گنا ضلع قصور اور اوکاڑہ میں کاشت کیا جاتا ہے۔ گنے کی کٹائی کے سیزن کے دوران اگر پنجاب سے سندھ کا دورہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں کتنا گنا ہے۔ گنے کے کٹتے کھیت اور لدی ٹرالیاں پنجاب کے شہر رحیم یار خان سے شروع ہوتی ہیں اور اندروں سندھ تک صرف گنے کی ٹرالیاں جاتی ہی نظرآتی ہیں۔ سائیکل، ٹانگا، بیل گاڑی، ٹریکٹر ٹرالی، ٹرک اور یہاں تک کے پیدل افراد بھی گنے کی گھٹریاں اٹھائے دکھائی دیتے ہیں۔ جب اتنا گنا کاشت کیا جا رہا ہے تو یہ آخر جاتا کہاں ہے؟
پاکستان میں گنے کی کاشت کی بات کی جائے تو یہاں رقبے کے لحاظ سے46 ٹن فی ایکڑ گنا کاشت کیا جاتا ہے جو کہ پاکستان کی چینی کی ضروریات کے لئے کافی ہے پھر کیا وجویات ہیںجن کی بناءپر گنے کی پیداور میںکمی کا شور مچا دیا جاتا ہے ۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 78 شوگر ملیں کام کر رہی ہیں جن میں پنجاب میں 42، سندھ میں 27 اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں 9 ملیں شامل ہیں۔ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں موجود 50 فیصد شوگر ملیں سیاستدانوں اور دیگر اثرورسوخ رکھنے والے افراد کی ملکیت ہیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنے فیصد چینی کرپشن کی نظر ہو جاتی ہے۔یہ لوگ ملک میں چینی فروخت کرنے کے بجائے بیرون ملک فروخت کردیتے ہیں اور ملک میں چینی کی کمی کاشور مچا دیتے ہیں۔ ان شوگر ملوں سے نہ صرف عام عوام بلکہ کسان بھی پریشان ہیں۔شوگر ملز نے کسانوں کو معاشی طور پر بدحال کر دیا ہے اور مزید تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہےں۔ گنے کی کٹائی کے بعد فصل کی قیمت میں کمی کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے کسانوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کسان سارا سال گنے کی بہتر پیداوار اور اسکی پوری قیمت کے حصول کے لئے مسلسل اور انتھک محنت کرتا ہے لیکن جب فصل کی پوری قیمت وصول نہ ہو تو اسے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کاشتکار گزشتہ 63 سال سے پاکستان کو فصلوں کی بہترین پیداوار دے رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ملکی ضرویات کو پورا کرنے کےلئے چینی وافر مقدار میں موجود ہے لیکن شوگر مل مالکان مقامی چینی کی قیمتوں کو بین الاقوامی قیمتوں کے برابر لانے کے لئے ٹی سی پی کو حکومت کی خریدی ہوئی چینی اٹھانے کی اجازت نہیں دے رہے۔چینی کے مصنوعی بحران کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں دوگنا اضافہ ہو جاتا ہے اور عوام کو مہنگائی کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حال ہی میں چینی کے بحران کی وجہ سے چینی کی قیمتیں 100 سے 130 روپے تک پہنچ گئی تھیں۔
چینی کی صنعت اس ملک میں ٹیکسٹائل کے بعد دوسری بڑی ایگر و انڈسٹری ہے ایک اندازے کے مطابق 20تا 25 لاکھ افراد گنے کی پیداوار اور کٹائی کے عمل میں شریک رہتے ہیں جبکہ شوگر ملوں سے ایک لاکھ کے قریب محنت کش بالواسطہ یا بلا واسطہ وابستہ ہیں۔ شوگر مالکان چینی سازی کے تین اہم مراحل میں بے تحاشا منافع کماتے ہیں پہلا مرحلہ گنے کی کاشت اور کٹائی کا ہو تا ہے شوگر مافیا کی پلانگ اسی وقت شروع ہو جاتی ہے جب انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ گنے کی پیداوار کیسی رہے گی گنے کی خریداری ملز مالکان براہِ راست نہیں کرتے بلکہ مڈل مین کے ذریعے کرتے ہیں جو چھوٹے کاشت کاروں سے نہایت کم داموں گنا خرید لیتا ہے یہ مڈل مین دراصل ملز مالکان یا بڑے زمینداروں کا ایجنٹ یا تنخواہ دار ہوتا ہے۔ اس طرح حقیقی کاشت کار کو بڑی مشکل سے اصل لاگت نصیب ہوتی ہے جبکہ ملز مالکان بعد میں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہوں نے سپورٹ قیمت سے کہیں زیادہ قیمت پر گنا خریدا ہے اس وجہ سے شکر کی پیداوار ی لاگت زیادہ ہو گئی ہے۔دوسرا مرحلہ چینی کی ملز میں پیداوار ہے یہاں ملز مالکان مزدوروں کا استحصال کر کے اور انہیں قانونی مراعات سے محروم کر کے اربوں روپے ہڑپ کر جاتے ہیں کرشنگ سیزن میں تقریباً ایک لاکھ سے زائد محنت کش ملوں سے وابستہ ہوتے ہیں لیکن ان کی اکثریت تقریباً0 8فیصد غیر مستقل اور نام نہاد ٹھیکیداری نظام کے تحت کام کر رہی ہوتی ہے ان محنت کشوں کو کم از کم اجرت، سوشل سیکیورٹی ، ای او بی آئی ، گروپ انشورنس، ورکرز پرافٹ کے قانون سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان سے دن رات کام لیا جاتا ہے چینی کی پیداواری لاگت میں لیبر بل کا حصہ8 فیصد سے بھی کم کرنے کے لئے پہلے سے حاصل مراعات بھی کم کر دیتے ہیں۔تیسرے مرحلہ میں چینی کی اسٹوریج اور فروخت شامل ہے اور یہاں بھی بڑے پیمانے پر کرپشن اور دھاندلی کے ذریعے اربوں روپے کمائے جاتے ہیں عام طور پر ملز مالکان یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی چینی بروکر کے ہاتھ فروخت کر دی لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ بروکرز بھی ملز مالکان کے ایجنٹ یا ملازم ہوتے ہیں اکثر ملز مالکان اپنی چینی بنکوں کو رہن رکھوا کر ان سے قرضہ حاصل کر لیتے ہیں تا کہ انکی رقم انکو فوری واپس مل جائے، جیسے ہی ملز مالکان کو اندازہ ہوتا ہے کہ کرشنگ سیزن کے بعدچینی کی پیداوار کتنی ہو گی تو وہ فوراً پلان کر لیتے ہیں کہ اگرچینی کی پیداوار ملکی کھپت کے مقابلے میں زائد ہے تو یہ لوگ مصنوعی بحران پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھرچینی کی ایکسپورٹ پرحکومت سے مراعات حاصل کرتے ہیں ۔چینی کی پیداوارکے بارے 2008ءمیںابتدائی تخمینہ رپورٹ جاری کی گئی تو اس میں متنبہ کیاگیاتھا کہ سال 2010 - 2009 کے دوران چینی کی پیداوار36 لاکھ 50 ہزارٹن سے زائد نہیں ہوگی جبکہ ملک میں چینی کی ضروریات کاتخمینہ 43 لاکھ 50 ہزار ٹن تھا۔ شوگرملزمالکان نے اس رپورٹ کے اجراءکے ساتھ ہی اپنی سازش پرعمل درآمدکا فیصلہ کرلیاتھا۔ ملک بھرکے 7 لاکھ کسان براہ راست گنے کی کاشتکاری سے وابستہ ہیں۔ گنا گیہوں اورکاٹن کے بعد زرعی شعبے کی مجموعی پیداوارکا 15.5 لاکھ میٹرک ٹن سالانہ ہے جوکہ سال کے صرف 155 دن کام کرکے حاصل ہوتی ہے۔

No comments:

Post a Comment