March 06, 2011

جدید ٹیکنولوجی ہماری ضرورت


تحریر: نگار علی
ٹےکنولوجی،سائنس اور معلومات کے فنی اور عملی استعمال کو کہا جاتا ہے اور اس شعبہ علم کے دائرہ کار میں وہ تمام آلات بھی آجاتے ہیں اور وہ تمام دستورالعمل یا طریق کار بھی کہ جو علمی معلومات کے عملی استعمال سے متعلق ہوتے ہیں۔ٹیکنالوجی کی اصطلاح عام طور پر طرازوں (tecniques) کے ایک مجموعے کے طور پراستعمال ہوتی ہے۔
ٹےکنولو جی ایک بہت وسیع اصطلاح ہے اور نوع انسان کا اس سے تعلق اس وقت سے جاری ہے کہ جب سے اس نے قدرتی اسباب اور وسیلوں کو سادہ اوزاروں میں بدلنا سیکھا۔ زمانہ قبل از تاریخ کے ادوار میں حضرت انسان کا آگ لگانے کے طریقے کا دریافت کرنا اور کسی وزنی چیز کے نیچے کوئی گول چیز رکھ کر اسے دھکیلنا (جس سے پہیے کی ایجاد ہوئی) سب کچھ ٹےکنولوجی ہی کی ابتدائی اشکال ہیں۔ اور موجودہ دور میں آئیں تو بہت سی ایسی ایجادات و طراز ہیں جنہوں نے اس دنیا کو ایک نئی شکل میں ڈھال دیا ہے، ان میں انٹر نےٹ اور اسکی بنیاد یعنی (computer) وغیرہ اہم ہیں۔ ایک اور پہلو یہ کہ تمام تر ٹےکنولوجی نے انسانی بھلائی کی جانب رخ نہیں کیا بلکہ کثیر تعداد میں ایسی ٹےکنولوجی بھی تخلیق کی جاچکی ہے اور کی جارہی ہے کہ جو انسانیت ہی کو مٹا دینے کی بھر پور صلاحیت سے مالا مال ہے اور انکی چند مثالوں میںآئٹم بوم اور Neutron bomb جیسے مہیب ہتھیار شامل ہیں۔
پاکستان سوفٹ وئر ایکسپورٹ بورڈ کے اعدا وشمار کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں ہر برس انفورمیشن ٹیکنولو جی کی برآمد میں پچاس فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور جون دو ہزار سات میں ختم ہونے والے مالی سال میں اس کی مالیت چالیس کروڑ ڈالر تھی۔
ان اعداد و شمار کو اگر آپ علاقائی تناظر میں دیکھنا چاہئیں تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مارچ دو ہزار سات میں ختم ہونے والے مالی سال میں انڈیا کی آئی ٹی برآمدات کی مالیت تین ارب ڈالر تھی۔قدرتی طور پر دونوں ممالک کی برآمدات کا مقابلہ کیا جائے گا لیکن پاکستان سافٹ وئر ہاو ¿سز ایسوسی ایشن کے سربراہ اس سے پریشان نہیں ہےں۔
کہ انڈیا نے برآمدات مےں ہم سے بیس گنا زیادہ رقم کمائی کیونکہ اس کی آبادی ہم سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔پاکستان کو جن وجوہات کی بناءپر برتری حاصل ہے ان میں کم قیمت ہونا اور خود کو ثابت کرنے کی خواہش شامل ہیں۔گزشتہ چند برسوں کے دوران سسٹمز لمیٹڈ، ایٹیلیز اور ایل ایم کے جیسی کمپنیوں نے آئی بی ایم، این سی آر اور مینٹر گرافکس جیسی بین الاقوامی کپمنیوں کے ساتھ کام کرکے پاکستان کو آئی ٹی اور آئی ٹی سے چلنے والی سروسز کے لیے پاکستان کو پرکشش بنانے کے لیے شاندار کام کیا ہے۔اس کا نتیجہ یہ کہ اب کاروباری افراد کی ایک نئی نسل پر امید ہے کہ وہ اس کو اگلے مرحلے تک لے جاسکتی ہے۔
ہمیں ٹیکنولوجی سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ وہ آنے والے دنوں میں ایڈوانس ہی ہوگی پیچھے نہیں جائے گی اور برسوں کا مشاہدہ بھی یہی کہتا ہے۔ ورنہ ہم اب تک پتھر کے زمانے کے رہن سہن کی ٹریننگ بھی لے رہے ہوتے کہ کیا پتا کم وقت کا مزاج بدل جائے اور ہمیں برہنہ تن پتھر کے اوزاروں سے جانوروں کا شکار کرکے زندگی کی گاڑی کھینچنی پڑ جائے۔
ایسی ہی ایک سوچ جو ہمارے یہاں کے تعلیمی نظام سے بری طرح پیوستہ ہے اور ہمیں اکثر پریشان کرتی ہے کہ ہائی اسکول اور انٹرمیڈیٹ بلکہ گریجویشن تک کے اداروں میں امتحانات میں کیلکیولیٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور نتیجتاً علم طبعیات کے پرچے میں بچے بچیاں درجہ چہارم اور پنجم کی ریاضی کے سوالات حل کرتے ہوئے نصف سے زائد وقت برباد کرتے ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ جمع تفریق، ضرب، تقسیم، عاد اعظم مشترک، ذ اضعاف اقل مشترک، لاگرتھم، کسر، اعشاریہ اور مربع وغیرہ کے سوال حل کرنے پر نہ صرف بچوں کو سیر حاصل تعلیم دی جا چکی ہے بلکہ متعلقہ جماعتوں میںان کا امتحان لے کر اس بات کو یقینی بنا لیا گیا ہے کہ ان کو یہ بنیادی چیزیں معلوم ہیں اور ان کو اس کی منطق بھی سمجھ میں آ چکی ہے پھر انھیں آگے جاکر مزید آسمانوں کی سیر کے لئے آزاد کیوں نہیں کیا جاتا۔ کیوں ان کا بیشتر وقت پچھلے کام کا اعادہ کرنے میں گزر جاتا ہے؟
مسلمانوں نے 600 سال تک سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔خدا تعالی نے مسلما نوں کو بے تحا شا قدرتی وسائل سے مالا مال فر مایا ہے مگر سائنس اور ٹیکنولوجی کے میدان میں پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کے میدان میںپیچھے ہیں۔ کسی ملک کی ترقی کا اندازہ ا ±س ملک میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر لاگت سے لگا یا جاتا ہے۔
فی زمانہ جن ممالک نے سائنس اور ٹیکنولوجی میں زیادہ ترقی کی ہے وہی دنیا پر راج کر رہے ہیں۔جو مما لک دور جدید میں سا ئنس اور ٹیکنولوجی سے محروم ہیں وہی ذلت اور کمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں اب تک سائنسی کلچر کو فروع نہیں دیا گیا۔ لوگ پولیس کے سپاہی اور پٹواری کی قدر اور عزت تو کر تے ہیں، مگر سائنسدان اورٹکنیشن کی ،جو کسی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں کوئی عزت نہیں کر تے۔ بین لاقومی اعداد شمار کے مطابق کسی ملک میں سائنسی تحقیق اور تر ویج پر 4 سے5 فی صد تک رقم بجٹ میں مختص کر نی چاہےے مگر بد قسمتی سے اسلامی کانفرنس کے 57 مسلمان ممالک میں یہ رقم.1فی صدسے.2فی صد تک کے درمیان ہے۔اگر اسلامی کانفرنس تنظیم کی ۵۷ ممالک کی اقتصادیات کو دیکھا جائے تو ان تمام مما لک کی اقتصادیات 1.6ٹریلین ڈالر ہے جبکہ دوسری طرف صرف جاپان کے اقتصادیات 7 ٹریلین ڈالر کے قریب ہے۔ اگر غور کیا جائے تو جاپان اور دوسری ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ہے۔مگر بدقسمتی سے مسلمان ممالک اسی مد میں کوئی خاطر خواہ ترقی حا صل نہ کر سکے۔

No comments:

Post a Comment