March 06, 2011

گندم کے گوداموں کی ناقص صورتحال


اسلام آباد (ہاجرہ زیدی) گندم کے سرکاری گوداموں کی صورتحال نہایت ناقص ہے۔ کٹائی کے بعد فصل کو کھیتوں میں ہی ترپال ڈھانپ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2010ءمیں سیلاب کے باعث گندم کے گوداموں کو سخت نقصان پہنچا تھا اورخوراک کی کمی بھی پیدا ہو گئی تھی۔ حالیہ سیلاب کی تباہی کے بعد ابھی تک گوداموں پر توجہ نہیں دی گئی، کسی بھی طوفانی بارش یا سیلاب کے نتیجہ میں فصلوںکی دوبارہ تباہی ہو سکتی ہیں۔ پاسکو کے گوداموں کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ فصلوں کو کس طرح تباہ ہونے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ گندم کو محفوظ کرنے کے لئے کا کسی بھی قسم کی چار دیواری کا انتظام نہیں کیا گیا۔
سابق وفاقی وزیر خوراک و زراعت نذر محمد گوندل نے کہا ہے کہ پاکستان خوراک کے معاملے خود کفیل ہے کیونکہ ملک میں خوراک کے وافر ذخائر موجود ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا فوڈ سکیورٹی کے لحاظ سے محفوظ ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا ہے۔ غذائی تحفظ کے موضوع پر تحقیق کرنے والے اداروں کا البتہ کہنا ہے کہ حکومت کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ اسے فوڈ سیکیورٹی سے متعلق بنیادی امور سے آگاہی ہی نہیں ہے۔
سابق وفاقی وزیر خوراک وزراعت نظر محمد گوندل کا کہنا ہے کہ ملک میں چاول، گندم، سبزیاں، آلو اور گنے کے وافر ذخائر موجود ہیں،خوراک کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ سیلاب سے سندھ میں ایک لاکھ بیس ہزار ٹن گندم کو نقصان ہوا ہے اس کے علاوہ باقی ذخائر محفوظ ہیں جبکہ فوڈ سکیورٹی کے یہ حالات ہیں کہ گندم کی بوریوں کو کھلے آسمان تلے رکھا جاتا ہے۔ گندم گوداموں کا حال نہایت خراب ہے گوداموں میں پڑی فصلوں کو کیڑا کے حملے کا خطرہ رہتا ہے۔ ایک نجی اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹنڈو غلام علی میں واقع محکمہ خوراک کے گودام کے کمرہ نمبر2 میں رکھی ہزاروں گندم کی بوریوں کو کیڑا لگنے کا انکشاف ہوا ہے۔
متاثرہ گندم کی مالیت کروڑوں روپے بتائی جاتی ہے۔ گندم کو کیڑا لگنے کے باعث محکمہ خوراک کے ملازمین نے گندم کو بچانے کیلئے گودام میں اسپرے کرکے اسے سیل کردیا ہے۔ اناج گودام پر تعینات سپروائزر شفیع محمد نظامانی کا کہنا ہے کہ اکثر بارشوں اور موسم کی تبدیلی کے باعث گودام میں ذخیرہ کی جانے والی گندم میں پہلے مرحلے میں سرا جو کہ بعد ازاں گڈر میں تبدیل ہوکر گندم کو متاثر کردیتا ہے اس سے بچاو کیلئے حکومت اور محکمہ خوراک کی جانب سے ملنے والی جراثیم کش ادویات کا گودام میں اسپرے کرکے اور کمرے کے تمام دروازے اور کھڑکیاں لیپائی کرکے سیل کردیئے جاتے ہیں۔ سپروائزر نے بتایا کہ اس وقت گودام میں گندم کی 25639 بوریاں ذخیرہ ہیں جن کو مذکورہ مرض سے بچاو کیلئے اسپرے کے مرحلے سے گزارا جارہا ہے اور اس ضمن میں محکمہ خوراک کی خصوصی ٹیم ہمارے گودام کا وزٹ کرکے رپورٹ بھی دے چکی ہے۔
فوڈ سکیورٹی انتظامات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے فلور ملز مالکان اور محکمہ خوراک کی ملی بھگت سے مٹی ملی گندم خریدنا شروع کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے مٹی ملا آٹا بازاروں میں فروخت کیا جا رہا ہے،مٹی ملی گندم سے بنائے گئے آٹے سے وبائی امراض پیدا ہو سکتے ہیں۔ محکمہ خوراک نے پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سندھ کے احتجاج پر مٹی ملی گندم کی عدم فراہمی کی یقین دہانی کراچکی ہے مگر پھر بھی آٹا بنانے کے لئے مٹی ملی گندم کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق محکمہ خوراک کے لانڈھی گودام میں تقریبا12 ہزار ٹن ایسی گندم رکھی ہوئی ہے جو 2008۔2009 کی فصل کی ہے اور اس گندم میں 30 فیصد تک مٹی شامل ہے جبکہ محکمہ خوراک نے بوری کا وزن پورا کرنے کے لئے بھی مٹی شامل کی ہے۔
تاہم عالمی ادارہ برائے خوراک یا ڈبیلو ایف پی کے ایک عہدیدارکا کہنا ہے کہ ا ±ن کے ادارے کے اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ سال کی پہلی شش ماہی کے دوران پاکستان کی 48 فیصد سے زائد آبادی کو عالمی معیار سے کم خوراک دستیاب تھی اورجولائی 2010ءمیں آنے والے سیلاب کے بعد اس شرح میں مزید تین فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔اہلکار کے مطابق ملک میں رواں سال خوراک دستیاب تو ہے لیکن قوت خرید نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کے لیے اپنی ضرورت کے مطابق خوراک کا حصول ممکن نہیں۔

No comments:

Post a Comment