March 03, 2011

زراعت پر دھیان دو یا فاقہ کشی کرو



تحریر: ڈاکٹر عبدالقدیر
سوئیڈن میں زراعت کی ایک یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک ہونہار طالب علم محمد بنیامین نے میری توجہ ملک میں زراعت کے شعبہ میں خستہ حالی اور نئے نئے شہروں کی تعمیر اور زرعی زمین کے دھیرے دھیرے فقدان کی طرف دلائی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت جبکہ ہم صرف بجلی کے فقدان سے پرےشان ہےں، زراعت اور آنے والے طوفان کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا۔ صرف اس وقت جب ملک میں گندم، چینی، سبزیوں اور کھانے کے تیل کا فقدان ہوتا ہے تو حکومت گندم، گنے کے کاشتکاروں کے منہ بند کر کرکے وقتی طور پر ان کو خاموش کر دیتی ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت حل ہو جاتا ہے اور اگلے سال پھر وہی مسئلہ سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کی معاشیات بہت حد تک زراعت پر منحصر ہے کیونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے۔ یہ ہماری قومی معاشیات (GDP) کا بڑاحصہ مہیا کرتی ہے اور اندازے کے مطابق آدھے سے زیادہ آبادی اس پیشے سے منسلک ہے۔ ہماری زراعت کا زیادہ تر انحصار پانی پر ہے، جو تقریباً چار ہزار میل لمبی نہروں پر مبنی ہے۔ یہ دنیا کا وسیع ترین نہری سسٹم ہے۔ زیادہ تر پانی دریائے سندھ سے آتا ہے جبکہ تھوڑا بہت پانی پنجاب کے دوسرے دریاو ¿ں سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے خراب نظام نکاسی کی وجہ سے بہت ساری قیمتی زمین سیم (Salinity) کا شکار ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں گندم ہمارے یہاں اہم فصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ چاول، باجرا، مکئی، گنا، جو، دالیں، سبزیاں، پھل، روئی وغیرہ کی کاشت ملک کے لئے اہم ہے۔ باسمتی چاول اور روئی ہمارے بہت قیمتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ ان چیزوں کے علاوہ تمباکو، تل اور مچھلی، جھینگے وغیرہ اہم اشیاءہیں جو ملک میں بھی استعمال ہوتی ہیں اور برآمد بھی کی جاتی ہیں اور قیمتی زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔
اب چند معروضات زرعی سائنس کے بارے میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ زمانہ قدیم سے زراعت نے تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے اور اکثر تاریخ کے رخ کا تعین کیا ہے۔ لوگوں نے لمبے لمبے فاصلے طے کئے اور نقل مکانی کی تاکہ سبز وادیاں اور دریا تلاش کر سکیں اور وہاں بس کر کاشتکاری کر کے آرام کی زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لئے خونریز جنگیں لڑی گئیں اور ہزاروں لوگوں کا قتل ہوا۔
دنیا میں تقریباً اسّی فیصد آبادی زراعت پر انحصار کرتی ہے اور اہم مسائل فصلوں کی تیاری اور ان کی فراہمی و دستیابی ہے، بین الاقوامی تجارتی نظام ہے، زمین کو فعال بنانے کے مسائل ہیں، زمین کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے اور خاص طور پر قدرتی وسائل کا ضرورت سے زیادہ استعمال اور اس کے ماحولیات پر برے اثرات ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زراعت آبادی کے نسبتاً کم فیصد لوگوں پر انحصار کرتی ہے مگر حکومت کے بجٹ کا ایک حصہ اس پر خرچ کیا جاتا ہے۔ عوام کو اچھا کھانا پینا ملتا ہے، اس طرح خوراک کی ضرورت سے زیادہ فراہمی، زراعت کاروں کو سرکاری امداد، زمین کا متبادل استعمال اور زرعی فارموں کی موجودگی کا ماحولیات پر نسبتاً بہت کم اثر پڑتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور مسئلہ کسانوں کی مستقل آمدنی اور دیہاتی معاشیات کو ٹھوس بنیادوں پر قائم رکھنا ہوتا ہے۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہو گا کہ ہالینڈ جیسا چھوٹا سا ملک جو سطح سمندر سے کئی گز نیچے ہے، سالانہ 5ارب ڈالر کے پھل اور سبزیاں برآمد کرتا ہے۔
ترقی پذیر یا غیر ترقی یافتہ ممالک کو اس کے برعکس بڑی آبادی کو خوراک مہیا کرنا وہ بھی تب جبکہ قدرتی وسائل بہت کم ہوتے ہیں، انتہائی غربت، آبادی کا تیزی سے اضافہ اور ماحول کی خرابی جیسے مسائل دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں اور خاص طور پر ہمارے اپنے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو زراعت، باغبانی، خوراک سے متعلق ٹیکنولوجی اور ان چیزوں سے متعلق اچھی تعلیم و تربیت دی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے ملک میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ لوگوں کو معاشیات و انتظامات کی تعلیم دی جائے جس کا تعلق زراعت، خوراک اور ان سے متعلق صنعتوں سے ہو۔
دو بہت بڑی مشکلات یا مراحل جن کا پاکستان کو فوری اور سخت سامنا ہے، وہ آبادی میں بے انتہا اضافہ اور شہروں اور رہائشی اسکیموں کا بے انتہا پھیلاو ¿ ہے۔ سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ پنجاب میں ہے۔ خاص طور پر ساہیوال، اوکاڑہ، ویہاڑی، ملتان وغیرہ میں جیسا کہ بنیامین نے مجھے آگاہ کیا ہے۔ اس وجہ سے لاکھوں ایکڑ زرخیز زمین ضائع ہو رہی ہے جن پر رہائشی سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اور بہت اچھی زرخیز زمین سیم کا شکار ہو کر بیکار ہوتی جا رہی ہے۔
ہماری آبادی میں اس وقت فی منٹ پانچ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اور ہماری آبادی میں جس قدر تیزی سے یہ اضافہ ہو رہا ہے اس کی موجودگی میں ہم کبھی بھی اپنے وسائل کو ترقی نہیں دے سکتے، یہ تقریباً نا ممکن ہوتا جا رہا ہے کہ سب کو مناسب قیمت پر خوراک، کپڑا اور مکان مل سکے۔ آزادی کے وقت مغربی اور مشرقی پاکستان کی مجموعی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ تھی اور اب صرف اس حصہ کی آبادی تقریباً سترہ کروڑ ہو گئی ہے۔ ہم اس اضافے کی رفتار سے کبھی بھی اپنے وسائل نہیں بڑھا سکتے۔
اس وقت اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں کے عوام کو خاندانی منصوبہ بندی کی ضرورت و اہمیت کی تعلیم دی جائے۔ یہ جنگی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے اور وہی حکمت عملی اختیار کی جائے جو چین، جاپان اور یورپی ممالک نے اپنائی ہے۔
ہمیں اس کا علم ہونا چاہئے کہ زراعت ہماری معاشیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ہماری پیداوار کا 25 فیصد حصہ ہے۔ یہ ہمارے تقریباً 17,16 کروڑ عوام کو خوراک مہیا کرتی ہے۔ یہ ہماری برآمدات کا تقریباً 70,80 فیصد ہے۔ یہ ہمارے محنت کشوں کی تقریباً 50 فیصد قوت استعمال کرتی ہے اور ہمارے دیہی علاقوں کی آبادی کا ذریعہ معاش ہے۔ اس کے علاوہ یہ ایک طرح کا خام مال ہوتا ہے جو بہت سی صنعتوں میں استعمال ہوتا ہے اور اندرونی مارکیٹ میں مقامی طور پر تیارکردہ اشیاءکی مارکیٹ بھی مہیا کرتی ہے۔
اور ہمیں یہ بھی پورا علم ہے کہ آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ رہائشی علاقوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ یہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ تقریباً 30 سال پیشتر ایک چینی وفد پاکستان آیا تھا۔ میں نے ان کو اپنے شہروں اور کچھ دیہاتی علاقوں کی سیر کرائی، چینی وفد کے سربراہ وزیر نے مجھ سے کہا کہ ہم ایک شدید تباہی کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام زرخیز زمینوں پر ہم سیمنٹ اور اینٹیں جما رہے ہیں اور چند سال بعد فصلیں اگانے کے لئے زمین ہی نہ ملے گی۔ اب اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ شہروں میں تعمیر اور شہروں کے باہر تعمیرات کے بارے میں سخت ترین قواعد بنائے جائیں اور ان پر عمل بھی کیا جائے۔ شہر اور ہاو ¿سنگ سوسائٹیوں کی تعمیر بنجر علاقوں میں کی جائے تاکہ زرخیز زمین کاشتکاری کے لئے محفوظ رہے۔ اگر ہم نے اس حکمت عملی پر فوراً عمل کرنا شروع نہ کیا تو ملک میں نہ کاشتکاری کیلئے زمین ہوگی اور نہ ہی کھانے کو کافی غلہ ہو گا اور نہ ہی ستر پوشی کیلئے کپڑا۔
انہوں نے کہا: ڈاکٹر خان چند سالوں میں تمہارے ہاں صرف مکانات ہی مکانات نظر آئیں گے۔ تمہاری تمام سرسبز زمین مکانوں کی نظر ہو جائے گی۔ اونچی عمارتوں اور فلیٹس کا رواج قائم کرو۔ یہ عمارتیں صاف ستھری ہوں اور ان کے نیچے ہر گز دکانوں کی اجازت نہ دو ورنہ کراچی کی طرح غلاظت ہی غلاظت نظر آئیگی۔ شاپنگ سینٹر علیحدہ قرب میں بنوا دو اور رہائشی عمارتوں کے سامنے خوبصورت چھوٹے چھوٹے باغات لگوا دو متوسط طبقہ بخوشی ان میں رہے گا، جیسا کہ مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں رواج ہے۔
ایک بڑا مسئلہ گرین ہاو ¿س کے اثرات ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی زیادتی کی وجہ سے سورج کی حرارت زمین کی نچلی فضا میں محفوظ ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زمینی حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کا نہ صرف فصلوں پر بے حد برا اثر پڑتا ہے بلکہ مچھلیوں کی پیدائش بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ چند دن پیشتر ایک انگریزی روزنامہ میں جناب آصف علی برونے اس مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ انہوں نے بتاےاکہ اگرچہ پاکستان دنیا کی گرین ہاو ¿س گیس کی پیداوار کا صرف صفر اعشاریہ چار فیصد پیدا کرتا ہے لیکن پھر بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں اس کا بارواں نمبر ہے۔
انہوں نے مشورہ دیا کہ اس آفت سے بچنے کے لئے ہمیں چاہئے کہ ہم بائیو ٹیکنولوجی میں زیادہ سے زیادہ رقم لگائیں تاکہ ہم زیادہ پیداوار والی، خشک سالی، سیلاب اور سیم سے محفوظ رہنے والی فصلیں کاشت کر سکیں۔ پاکستان میں چند ادارے اس میدان میں سرگرم عمل ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کو حکو مت چاہئے کہ وہ فراخ دلی سے اس کی مالی امداد کرے تاکہ ہمارے مستقبل کا دفاع ہو سکے۔ میں نے خود کراچی یونیورسٹی میں ایک اعلیٰ بائیو ٹیکنولوجی اور جینیٹک انجینئرنگ انسٹی ٹیوٹ تقریباً سات سال پیشتر قائم کیا تھا جو اسی میدان میں کام کر رہا ہے۔
زراعت کے میدان میں اپنی معلومات کے بارے میں ”من آنم کہ من دانم “ والی بات ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ طفل مکتب ہوں لیکن میری جان پہچان اور تعلق، دوستی جن چند ماہرین سے رہی ہے اس سے میں نے تھوڑا بہت علم حاصل کر لیا ہے، جن ماہرین کے علم، مضامین اور دوستی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے، ان میں جناب شفی نیاز ، جناب ظفر اقبال، ڈاکٹر محمود حسن خان ( جو کینیڈا میں پروفیسر کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں ) قابل ذکر ہیں۔ یہ لوگ اس میدان میں ماہر ہیں اور حکومت کو چاہئے کہ ان ماہرین کی مدد حاصل کرے، فراخ دلی سے مالی مدد ے اور ملک اور قوم کو آنے والے طوفان سے بچائے۔

No comments:

Post a Comment