March 06, 2011

لکیر پیٹتے رہ گئے



ہمارے ملک مےں رواج ہے کہ ہم وقت گزرنے کے بعد ڈنڈھورا پیٹتے ہیں، جب تک پانی سر سے اونچا نہ ہو جائے ہمارے کان پر جوں نہیں رینگتی، ایسی ہی وقت گزرنے کے بعد کا رونا زرعی خود کفالت کے حوالے سے گزشتہ کچھ عرصے سے ہم سنتے چلے آرہے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے، ملکی آمدن کا دارومدار زراعت پر ہے، ملک کی ستر فیصد آمدنی زراعت کے ذریعے ہوتی ہے اور اس طرح کے متعدد دیگر کلمات ہم بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں، لیکن زراعت کو بحیثیت انڈسٹری چلانے کےلئے ہم نے کوئی سسٹم نہیں اپنایا ہے۔
بات سسٹم یا نظام بنانے کی نہیں ہے، نظام بنانے میں ہم اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ ہماری کمزوری نظام کو چلانا ہے، ہم سے بہتر منصوبہ بندی کرنے والے بہت کم ممالک نظر آتے ہیں، ہمارے بنائے گئے منصوبوں پر عمل کرکے دیگر ممالک ترقی کے زینے طے کرتے کرتے آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں۔ مگر ہم آج بھی آغاز ہی میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ اب تو ہم نے نظام بنانا بھی بند کردیئے ہیں کہ بقول شاعر
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دوکان اپنی بڑھا گئے
اس تمام تمہید کا مقصد ملک میں متوقع گندم کے بحران کی طرف توجہ دلانا ہے، اگرچہ ہماری تمام انتظامیہ اس بات پر مصر ہے کہ ملک میں کسی قسم کا گندم کا بحران نہیں ہے بلکہ ہم اضافی گندم کی توقع کررہے ہیں۔ بقول ہمارے ایک دوست کہ جب بھی حکومت جس بات کی نفی کرے تو سمجھ جائیں کہ وہ کام یا تو خود ہونے والا ہے یا حکومت کرنے والی ہے۔
گندم کی موجودہ فراوانی کی بھی کچھ ایسی ہی کہانی سنائی دے رہی ہے۔ ہم اس سے پہلے بھی ان حالات کا سامنا کر چکے ہیں اس وقت بھی حکومت کا یہی موقف تھا کہ گندم کی فراوانی ہے لہذا گندم برآمد کردی جائے اور جب برآمد کردی گئی تو معلوم ہوا کہ اعدادوشمار کی غلطی کے باعث غلط تخمینہ لگایا گیا تھا اور پھر گندم مہنگے دام درآمد کی گئی۔
موجودہ وقت میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی نظر آرہی ہے، اربابِ اختیار لاکھوں ٹن اضافی گندم کی پیشن گوئی کرچکے ہیں اور جب کہ حکومتی پیشن گوئی کردی گئی ہے تو موسم موافق رہے نہ رہے، چاہے قدرتی آفات آئیں یا نہ آئیں حکومتی تخمینہ تو غلط ہوہی نہیں سکتا۔ جب حکومت نے کہہ دیا کہ تین لاکھ ٹن اضافی گندم پیدا ہوگی تو ہو گی۔ وہ الگ بات ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ابھی سے اس دعوے کی تردید سنائی دے رہی ہے۔ بلکہ بعض حلقے تو اعدادوشمار تک دے رہے ہیں کہ حکومتی دعوے میں کس قدر کمی کا امکان ہے جو محتاط اندازے کے مطابق کم از کم دو لاکھ ٹن تو ہے ہی۔
ہمیں چاہیئے کہ ہم گندم برآمد کرنے کےلئے پہلے متوقع گندم کی فصل کا تفصیلی جائزہ لیں، اس کے درست اعداد و شمار حاصل کریں اور قدغن لگائیں کہ اگر اندازے غلط نکلے تو متعلقہ اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

No comments:

Post a Comment