March 03, 2011

فضائی آلودگی کے ذمہ دار عوامل


تحریر: ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
گلوبل وارمنگ ایک عالمی مسئلہ ہے۔دنیا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دس ممالک کا ہے جن میں امریکہ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر چین، تیسرے پر روس، چوتھے پر جاپان، پانچویں پر بھارت، چھٹے پر جرمنی، ساتویں پر برطانیہ، آٹھویں نمبر پر کینیڈا، نویں پر جنوبی کوریا اور دسویں نمبر پر اٹلی ہے۔ امریکہ کا دنیا کی کل کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں حصہ 24%، یورپی ممالک کا 14% اور چین کا 13% ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اوسطاً 10 میٹرک ٹن فی کس سالانہ ہے، اس کے مقابلے میں ایک امریکی سالانہ 20 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے کا ذمہ دار ہے جو دنیا کے باقی ممالک کی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اوسط اخراج سے چھ گنا زائد ہے۔ اسی رپورٹ کی رو سے دنیا بھر میں صرف کمپیوٹر کے ذریعے 45 ملین میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہورہی ہے۔
گزشتہ سال عالمی یوم ماحول کے موقع پر نیشنل فورم فار انوائرنمنٹ اینڈ ہیلتھ نے ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ سنگین ماحولیاتی مسائل کے باعث پاکستان میں انسانی زندگی، معیشت، زراعت اور ترقی کو شدید خطرات لاحق ہورہے ہیں اور حکومتی اداروں و نجی اداروں کی غفلت، عدم دلچسپی اور عدم ترجیحی کے باعث یہ مسائل مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 برسوں میں وزارت ماحولیات کے بجٹ میں 1700 فیصد اضافہ کیا گیا اور غیر ملکی امداد سے فضائی آلودگی کو کنٹرول کرنے کے 8 سے زائد منصوبے شروع کئے گئے مگر اس کے کوئی مثبت نتائج حاصل نہیں ہوئے۔
کراچی سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں کی فضائی آلودگی میں 70 فیصد حصہ ٹرانسپورٹ کا ہے۔ کراچی میں اس وقت تقریباً 17 لاکھ اور ملک بھر میں تقریباً 36 لاکھ سے زائد گاڑیاں ہیں جن میں سے 30 فیصد سے زائد گاڑیاں دھواں خارج کرکے فضائی آلودگی کی ذمہ دار ہیں جس میں 1970ءاور 1980ءکی دہائی میں رجسٹرڈ ہونے والی ڈیزل سے چلنے والی گاڑیاں دھواں خارج کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ اس کے علاوہ ان گاڑیوں میں سے کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر نائٹروجن کے اخراج سے سانس، جلد، ناک، کان، حلق، گلے اور اعصابی بیماریوں میں ہر سال 8 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔ بیرونی ممالک میں پرانی دھواں دینے والی گاڑیوں کی فٹنس کے بغیر انہیں رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا جبکہ ہمارے ملک میں اس پر سختی سے عملدرآمد نہیں ہورہا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر سال 6 لاکھ اور پاکستان میں 30 ہزار افراد سالانہ فضائی آلودگی کے باعث ہلاک ہورہے ہیں۔ ان مضر اثرات کو روکنے کے لئے ملک میں ماحول دوست سی این جی گرین بسوں کے استعمال کو فروغ دینے کے لئے حکومت نے پانچ ارب روپے مختص کرنے، ڈیوٹی اور ٹیکسوں میں سہولت اور دیگر مراعات دینے کیلئے ایک اسکیم متعارف کرائی گئی تھی لیکن سی این جی بسوں کی تعداد کے استعمال میں کوئی اضافہ نظر نہیں آیا۔ دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ کی ناقص سہولتوں کے باعث کراچی میں 300 اور ملک بھر میں 600 گاڑیاں روزانہ رجسٹر ہورہی ہیں جس سے ٹریفک جام، پارکنگ اور فضائی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے علاوہ صنعتیں بھی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب ہیں۔ قومی ماحولیاتی پالیسی میں صنعتوں کے لئے اعلان کئے گئے ماحولیاتی معیار (NEQS) پر کوئی عملدرآمد نہیں نظر آرہا۔ کراچی میں 8 ہزار سے زائد صنعتوں میں اب تک صرف 20% نے ماحولیاتی قوانین پر عمل کیا ہے اور 80% تجارتی و صنعتی اداروں نے ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی سرمایہ کاری اور منصوبہ بندی نہیں کی۔ آبی آلودگی کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال 9 ہزار ٹن سالانہ آئل، کیمیکل اور صنعتی فضلہ سمندر میں پھینکا جارہا ہے جس سے تقریباً 20 ناٹیکل میل تک سمندر کا حصہ زہریلا ہوچکا ہے۔ 1970ءسے قائم گڈانی کی شپ بریکنگ انڈسٹری میں اب تک ماحولیاتی تجزیہ نہیں کرایا گیا اور اس صنعت میں ماحولیاتی قوانین نافذ نہیں کئے گئے جس کے باعث پرانے بحری جہازوں سے آئل، کیمیکل، دھاتی آلودگی اور صنعتی فضلہ براہ راست سمندر میں بہہ رہا ہے۔ شپ بریکنگ انڈسٹری میں کام کرنے والوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور ہر سال درجنوں مزدوروں کی ہلاکت آبی آلودگی کے باعث ہورہی ہے۔ پاکستان دنیا کا وہ چھٹا منفرد ملک ہے جہاں 885 کلومیٹر ساحلی پٹی جس میں سندھ میں 241 کلومیٹر اور بلوچستان میں664 کلومیٹر میں آبی آلودگی روکنے والے تیمر کے جنگلات اور6 لاکھ ہیکٹر پر مینگرووز کے درخت ہیں مگر بدقسمتی سے ان درختوں کو اونٹوں کے چارے اور ایندھن جلانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ پورٹس اور ہاربر کی توسیع اور غلط منصوبہ بندی کے باعث بھی یہ جنگلات جو آبی آلودگی کو روکنے کا ایک قدرتی ذریعہ ہیں ضائع کئے جارہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment